سورة ابراھیم - آیت 8

وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور وہ لوگ جو زمین میں ہیں، سب کے سب کفر کرو تو بے شک اللہ یقیناً بڑا بے پروا، بے حد تعریف والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 8 سے 9) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک بار پھر سمجھانا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا تھا۔ کیونکہ توحید کو سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے کیے بغیر ا ٩ نسان کی پائیدار بنیادوں پر اصلاح نہیں ہو سکتی۔ توحید کا یہ تقاضا ہے کہ انسان مشکلات پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے۔ شکرکا الٹ اللہ تعالیٰ کی ناقدری اور اس کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتلایا اور سمجھایا کہ اگر تم اور جو بھی زمین پر انسان موجود ہیں اور ہوں گے وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کا انکار کریں تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ بندوں کے شکریہ اور ان کی فرما نبرداری کا محتاج نہیں کیونکہ وہ ہر اعتبار سے بے نیاز اور حمد وستائش کے لائق ہے۔ کیا تمہیں پہلے لوگوں کے واقعات کا علم نہیں ؟ جن میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم عاد، ثمود اور ان کے بعد لوگوں کا آسمانی اور تاریخ کی کتابوں میں ذکر موجود ہے۔ ان میں ایسی اقوام بھی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بشر کو نہیں کہ کونسی قوم کس علاقے اور کس انجام کے ساتھ دوچار ہوئی۔ ان کے پاس اللہ کے رسول بین دلائل کے ساتھ آئے۔ مگر ان قوموں نے انبیاء (علیہ السلام) کے اخلاص کی قدر کرنے، ان کی دعوت سمجھنے اور ان کی تائید کرنے کی بجائے اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ جس دعوت کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا صاف صاف انکار کرتے ہیں کیونکہ جس عقیدہ کی تم دعوت دیتے ہو ہم اس کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ چہروں پر ہاتھ رکھنے کا مقصد انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت سے نفرت کا اظہار کرنا تھا۔ جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے منفی کردار کا ذکر کرتے ہوئے بیان ہوا ہے کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے اور سمجھاتے کہ اے میری قوم اگر تم شرک وخرافات کو چھوڑ دو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سابقہ گناہ معاف کرے گا۔ لیکن قوم نے ان کی دعوت قبول کرنے کی بجائے کانوں میں انگلیاں ڈال دیں اور اپنے چہروں کو کپڑوں سے ڈھانپ لیا۔ ( نوح :7) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ 2۔ ساری کائنات مل کر بھی اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات سے بے پروا ہے۔ 4۔ سابقہ امم کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اقوام کے پاس رسول بھیجے۔ تفسیر بالقرآن : شکر کے فائدے اور ناشکری کے نقصانات : 1۔ اگر تم اس کی ناشکری کرو تو اللہ بے پروا ہے اور تعریف والا ہے۔ (ابراہیم :8) 2۔ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اگر ناشکری کرو تو اس کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (ابراہیم :7) 3۔ جو شخص شکر کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو ناشکری کرتا ہے میرا رب اس سے بے پروا ہے۔ (النمل :40)