سورة ابراھیم - آیت 4

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں، تاکہ وہ ان کے لیے کھول کر بیان کرے، پھر اللہ گمراہ کردیتا ہے جسے چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو گمراہی اور تاریکیوں سے نکالنے کے لیے جو آسانیاں عنایت فرمائی ہیں۔ ان میں ایک آسانی یہ ہے کہ جتنے پیغمبر مبعوث فرمائے وہ اپنی قومی زبان میں ہی وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو ان کی بات سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایات اور کرم فرمائیوں میں یہ بھی ایک عنایت اور کرم فرمائی ہے کہ اس نے جتنے پیغمبر مبعوث فرمائے وہ سب کے سب انسان تھے جو انسان ہونے کے ساتھ اپنی اپنی قوم کے فرد ہوا کرتے تھے۔ انہیں حکم تھا کہ وہ لوگوں کو انہی کی زبان میں اپنے رب کا پیغام پہنچائیں۔ لوگوں کی زبان میں بات کرنے کا معنی یہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کسی غیر زبان میں وعظ ونصیحت کرنے کی بجائے اپنی قوم کی زبان میں ہی وعظ کیا کرتے تھے۔ اس کا یہ بھی مفہوم ہے کہ وہ مرقع، مسجع، پر تکلف الفاظ اور انداز اختیار کرنے کی بجائے لوگوں کی فہم اور علمی لیاقت کے مطابق صاف اور سادہ انداز میں سمجھایا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو دین سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ لیکن انبیاء (علیہ السلام) کی انتھک اور پر خلوص کوشش کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو پسند کیا۔ اسی آیت کے پیش نظر خطبہ جمعہ بھی اپنی زبان میں ہونا چاہیے۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیں روح الخطبہ از قلم شیخ عبدالعزیز نورستانی )۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو انہیں جبراً ہدایت پر جمع کرسکتا تھا لیکن اس کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے ہدایت واضح کر کے انہیں اختیار دیا جائے کہ وہ ہدایت اور گمراہی میں سے جس کا چاہیں انتخاب کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی پسند کے مطابق ہی اسے انتخاب کی توفیق بخشتا ہے اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے۔ نبی اکرم (ﷺ) تکلف نہیں کرتے تھے : ﴿قُلْ مَآأَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِلْعَالَمِیْنَ [ ص : 86۔87] ” فرما دیجیے کہ میں تم سے اس قرآن پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں یہ قرآن لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَسْعُوْدِ الْعَبَدِیِ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَانَ الْفَارَسِیَ (رض) یَقُوْلُ نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ () أَنْ نَتَکَلَّفَ للضَّیْفِ)[ رواہ الحاکم فی المستدرک وہو حدیث صحیح ] ” حضرت عبدالرحمٰن بن مسعود العبدی کہتے ہیں کہ میں نے سلمان فارسی (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں رسول اللہ (ﷺ) نے مہمانوں کے لیے تکلف کرنے سے منع کیا تھا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ (رض) فَقَالَ نُہِیْنَا عَنِ التَّکَلُّفِ)[ رواہ البخاری : کتاب الاعتصام] ” حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے کہا کہ ہم تکلف کرنے سے منع کیے گئے تھے۔“ یعنی رسول اللہ (ﷺ) صحابہ کو تکلف کرنے سے منع کرتے تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَآءِ فَاجْتَنِبْہُ، فَإِنِّی عَہِدْتُ رَسُول اللّٰہِ () وَأَصْحَابَہٗ لاَ یَفْعَلُوْنَ إِلاَّ ذٰلِکَ یَعْنِی لاَ یَفْعَلُونَ إِلاَّ ذٰلِکَ الاِجْتِنَابَ ) [ رواہ البخاری کتاب الدعوات، باب مَا یُکْرَہُ مِنَ السَّجْعِ فِی الدُّعَآءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ دعا میں قافیہ بندی سے بچو۔ کیونکہ میں ایک عرصہ آپ (ﷺ) اور آپ کے صحابہ کے ساتھ رہا ہوں وہ اسی طرح نہیں کرتے تھے یعنی قافیہ بندی سے بچتے تھے۔“ مسائل: 1۔ تمام رسول اپنی زبان میں ہی وعظ ونصیحت کرتے تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : تمام انبیاء ( علیہ السلام) انسان تھے : 1۔ تمام رسولوں کو ان کی قوم میں انہی کی زبان میں بھیجا گیا۔ (ابراہیم :4) 2۔ انبیاء اقرار کرتے تھے کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم :11) 3۔ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ آدمی تھے۔ (یوسف :109) 4۔ اللہ نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشرہی تھے۔ (النحل :43) 5۔ رسول اللہ کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشرہوں۔ (الکہف :110)