الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ
وہ جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کرتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی ڈھونڈتے ہیں، یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : قرآن مجید کا انکار اور لوگوں کے صراط مستقیم سے انحراف کی بڑی وجہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا ہے۔ جو لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی عیش و عشرت کو ترجیح دیتے ہیں وہی لوگ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بننے کے ساتھ اس میں کج روی تلاش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ گمراہی میں بہت دور نکل جاتے ہیں۔ ان کا صراط مستقیم کی طرف پلٹنا نہایت ہی مشکل ہے۔ قرآن مجید انسان کو دنیا سے لاتعلقی کا حکم نہیں دیتا اس کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر انسان آخرت کو مقدم رکھنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی ہے اس کے مقابلے میں آخرت اور اس کی نعمتیں مستقل اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ آخرت کو مقدم رکھنے والا ہر وقت اپنا احتساب کرتا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ لوگ آخرت کی بجائے دنیا کو ترجیح دیتے ہیں جو شخص دنیا کو آخرت کے مقابلے میں ترجیح دیتا ہے اس میں بیک وقت جو کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایسا شخص نہ صرف اپنے قول وفعل سے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ وہ اس قدر گمراہ ہوجاتا ہے اور دین کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے علماء سوء اور دنیا پرست لوگوں کا کردار ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔ معاشرے میں جتنی بے پردگی، بے حیائی اور بےدینی پھیلتی ہے اس کا موجدکافی حد تک وہ طبقہ ہے جو آزادی کی آڑ میں نئے سے نیا فیشن اور آزادی کے نام پر اسلام کی من مانی کی تاویلیں کرتا ہے۔ یہ طبقہ ہر معاملہ میں دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ لوگ خود گمراہ ہونے کے ساتھ شعوری اور غیر شعوری طور پر معاشرے کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں بعض لوگ بالخصوص حکمران طبقہ مذہی لوگوں کی ہمدریاں حاصل کرنے کے لیے دین کے نام پر ہی بدعت، رسومات پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کام کے لیے علماء سوء ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے علما کے ذہن میں بھی دنیا پرستی کا عنصر ہی غالب ہوا کرتا ہے۔ جس کی قرآن مجید نے ان الفاظ میں نشاندہی کی ہے ” اے ایمان والو! علماء اور درویشوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ یہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے راستے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں اذیت ناک عذاب کی خوشخبری دیجئے۔ قیامت کے دن سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں، کروٹوں اور پشتوں کو داغتے ہوئے کہا جائے گا کہ یہ ہے تمہارا خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا اور اپنے جمع شدہ مال کی سزا پاتے رہو۔ (التوبۃ:35) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (ﷺ) خَطَّامُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْْ فِی الْوَسَطِ فَقَالَ ھٰذَا الْاِنْسَانُ وَھٰذَٓا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ اَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطُوْطُ الصِّغَارُ الْاَعْرَاضُ فَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا وَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِیلٍ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے ایک دفعہ ایک مربع شکل کا خط کھینچا۔ اور وسطی خط کے درمیان سے کچھ خطوط کھینچے۔ ایک درمیان سے باہر نکلنے والا خط کھینچا اور فرمایا‘ یہ انسان ہے۔ اور یہ مربع اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے۔ جو خط باہر نکل رہے ہیں‘ وہ انسان اس کی خواہشات ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے خطوط آفات اور بیماریاں ہیں۔ اگر ایک سے محفوظ رہا تو دوسری اسے آلے گی۔ اگر یہ بھی اس سے خطا کر جائے‘ تو تیسری آفت اسے اپنا نشانہ بنالے گی۔“ مسائل: 1۔ کافر آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو پسند کرتے ہیں۔ 2۔ دنیا پرست لوگ قولاً اور عملاً لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : دین کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دینے والوں کا انجام : 1۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہی دور کی گمراہی میں ہیں۔ (ابراہیم :3) 2۔ وہ لوگ جو دین کو کھیل تماشا بناتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف :51) 3۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (النحل :107) 4۔ جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (الناز عات :38)