سورة الرعد - آیت 35

مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا ۚ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوا ۖ وَّعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس جنت کی صفت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اس کے نیچے سے نہریں بہ رہی ہیں، اس کا پھل ہمیشہ رہنے والا ہے اور اس کا سایہ بھی۔ یہ ان لوگوں کا انجام ہے جو متقی بنے اور کافروں کا انجام آگ ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : کفار اور مشرکوں کے مقابلہ میں توحید کا عقیدہ رکھنے اور نیک اعمال کرنے والوں کا بہتر انجام اور صلہ۔ قرآن مجید اپنے دلکش اور مفیدترین اسلوب کے مطابق دونوں قسم کے لوگوں اور کرداروں کا انجام بیان کرتے ہوئے واضح کرتا ہے جن لوگوں نے صرف ایک اللہ کو مشکل کشا اور حاجت رواجانا اور اس کے حکم کے تابع ہو کر زندگی بسرکی، مشرکوں اور کفارکے ظلم وستم کا نشانہ بنے ان کے لیے جنت کا وعدہ ہے جس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں۔ اس کے گھنے پھل اور ٹھنڈے سائے ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ متقین کا بہترین انجام ہوگا اور ان کے مقابلہ میں کفار کے لیے جہنم کی آگ کے دہکتے ہوئے انگارے ہوں گے۔ جنتیوں اور جہنمیوں کا فرق : (جَابِرُ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () یَأْکُلُ أَہْلُ الْجَنَّۃِ فِیْہَا وَیَشْرَبُوْنَ وَلاَ یَتَغَوَّطُوْنَ وَلاَ یَمْتَخِطُوْنَ وَلاَ یَبُوْلُوْنَ وَلٰکِنْ طَعَامُہُمْ ذَاکَ جُشَآءٌ کَرَشْحِ الْمِسْکِ یُلْہَمُوْنَ التَّسْبِیْحَ وَالْحَمْدَ کَمَا یُلْہَمُوْنَ النَّفَسَ قَالَ وَفِیْ حَدِیثِ حَجَّاجٍ طَعَامُہُمْ ذٰلِکَ )[ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ النار، باب فِی صِفَاتِ الْجَنَّۃِ وَأَہْلِہَا وَتَسْبِیْحِہِمْ فِیْہَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا جنتی جنت میں کھائیں پییں گے، نہ پاخانہ کریں گے اور نہ ان کی ناک سے فضلہ آئے گا اور نہ ہی وہ پیشاب کریں گے۔ ان کا کھانا کستوری کی مانند ایک ڈکار سے ہضم ہوگا، تسبیح اور تحمید ان میں اس طرح الہام کی جائیں گی جس طرح سانس چلتی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تسبیح اور تحمید ان کی غذا ہوگی۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَ رَدْتُّ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہٰذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ آدَمَ أَنْ لاَّ تُشْرِکَ أَحْسَبُہٗ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ النار ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی کریم سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب والے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے وہ تیرے لیے ہو تو کیا تو اسے فدیہ کے طور پردے دے گا وہ کہے گا جی ہاں! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اس سے بھی زیادہ تجھ سے نرمی کی تھی جب کہ تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا، راوی کا خیال ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخلنہ کرتا لیکن تو شرک سے باز نہیں آیا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنْ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّ سِتِّیْنَ جُزْءً اکُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ النَّارِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا تمہاری آگ‘ دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک ہے آپ سے عرض کیا گیا‘ اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! جلانے کو تو یہی آگ کافی تھی۔ آپ نے فرمایا دوزخ کی آگ کو دنیا کی آگ سے انہتر ڈگری بڑھا دیا گیا ہے، ہر ڈگری دنیا کی آگ کے برابر ہوگی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ 2۔ جنت کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ 3۔ جنت کے پھل اور سائے ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ 4۔ کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ تفسیر بالقرآن : متقین کا صلہ اور کفار کا انجام : 1۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد :35) 2۔ صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود :49) 3۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر :45) 4۔ کفار کے چہرے کالے ہوں گے اور جنتیوں کے چہرے پرنور ہوں گے۔ (آل عمران : 106۔107) 5۔ مجرم کے لیے جہنم ہے۔ (طٰہٰ:74) 6۔ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف :74) 7۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی اور متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : 26۔27)