وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ أَنَابَ
اور جن لوگوں نے کفر کیا کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی۔ کہہ دے بے شک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف اسے راستہ دیتا ہے جو رجوع کرے۔
فہم القرآن : (آیت 27 سے 29) ربط کلام : عقیدۂ آخرت سے انحراف اور دنیا کے مال ومتاع پر اترانے کی وجہ سے منکرین حق کی ہٹ دھرمی۔ اس سورۃ مبارکہ کی پہلی آیت میں قرآن مجید کو من جانب اللہ قرار دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آفاق، جمادات اور نباتات کے حوالے سے اپنی ذات اور صفات کے بارے میں اتنے بھاری اور ٹھوس دلائل دیے ہیں کہ جن کا جواب دینا انسان کے تصور سے ماوراء ہے۔ یہ ایسے ٹھوس اور بھاری دلائل ہیں کہ ان کا انکار کرنے والے کو اندھا قرار دیا گیا ہے۔ اسی اندھے پن کا نتیجہ تھا کہ کفار ٹھوس اور واضح دلائل کو تسلیم کرنے کی بجائے ہر بار مطالبہ کرتے کہ کوئی نیا معجزہ نازل کیا جائے۔ یہاں کفار کی کوتاہ بینی اور ہٹ دھرمی کا صرف اتنا جواب دیا ہے کہ اے رسول (ﷺ) ! ان سے فرما دیں دلائل اور معجزات تو بہت آچکے مگر تم انہیں تسلیم کرنے کی بجائے انکار کی روش اختیار کیے ہوئے ہو۔ در حقیقت ہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے جو شخص تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کا انکار کرتا جائے۔ اسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے اور جو شخص ہدایت کی تمنا اور اس کی جستجو کرتا ہے اسے ہدایت عطا کی جاتی ہے۔ کیونکہ ہدایت اس قدر گراں مایہ نعمت ہے جو تمنا اور جستجو کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ اے لوگو! یاد رکھو کہ دل اللہ کے ذکر سے ہی سکون اور اطمینان پاتے ہیں۔ جو لوگ ایمان کے ساتھ صالح کردار اپناتے ہیں ان کے لیے ان کی موت کے بعد ہر قسم کی خوشحالی اور رہنے کا بہترین مقام ہوگا۔ ” الذکر“ سے مراد اللہ پر سچا ایمان لانا اس کی تسبیح پڑھنا، اس کی معرفت حاصل کرنا اور اس کے بتلائے ہوئے طریقے پر زندگی بسر کرنا ہے۔ اس لیے نبی اکرم (ﷺ) نے حج کے موقعہ پر جمرات کو کنکریاں مارنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا اور بیت اللہ کے طواف کرنے کو اللہ کا ذکر قرار دیا ہے۔ ” اللہ“ کے ذکر سے مومن کا دل قرار اور سکون پا کر نیک اعمال کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جنت میں بہترین مکان اور مقام عطا کیے جائیں گے۔ ” طوبیٰ“ کا معنی ہر قسم کی خوشحالی اور یہ جنت کے ایک درخت کا نام ہے۔ جس کے طول وعرض کے بارے میں آپ (ﷺ) نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) أَنَّ رَجُلاً قَالَ لَہٗ یَا رَسُول اللّٰہِ طُوْبٰی لِمَنْ رَّآکَ وَآمَنَ بِکَ قَالَ طُوْبٰی لِمَنْ رَّآنِی وَآمَنَ بِیْ ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَلَمْ یَرَنِیْ قَالَ لَہٗ رَجُلٌ وَمَا طُوبٰی قَالَ شَجَرَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ مَسِیْرَۃُ مائَۃِ عَامٍ ثِیَابُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ تَخْرُجُ مِنْ أَکْمَامِہَا )[ رواہ أحمد وہو حدیث حسن ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ سے عرض کی اے اللہ کے رسول ! اس آدمی کے لیے خوشخبری ہے جس نے آپ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لایا۔ آپ نے فرمایا خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، پھر خوشخبری ہو، خوشخبری ہو، خوشخبری ہو اس شخص کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا اور اس نے مجھے دیکھا نہیں۔ آدمی نے آپ سے پوچھا طوبیٰ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ جنت میں ایک درخت ہے جس کی مسافت سو سال ہے اس کے خوشوں سے جنتیوں کا لباس نکلتا ہے۔“ ذکر کی اہمیت و فضیلت : ذکر روحانی و جسمانی بیماریوں کا علاج، قلب و نظر کا سکون اور اطمینان، مشکلات سے نکلنے کا آسان راستہ، اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی نصرت و حمایت کا ذریعہ، ذکر کرنے والے کا حریم کبریا میں تذکرہ اور فلاح و کامیابی کا زینہ ہے لہٰذا ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کیجیے۔ ذکر دنیاوآخرت کی کامیابیوں کا ذریعہ ہے۔ بشرطیکہ الفاظ اور انداز قرآن اور نبی (ﷺ) کے فرمان کے مطابق ہو۔ من گھڑت یا بزرگوں کے حوالے سے مصنوعی درودو وظائف سے ممکن ہے کہ مشکلات آسان ہوجائیں مگر قرآن اور نبی (ﷺ) کے الفاظ کی برکت اور سنت رسول سے محرومی اس کا مقدر ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُ (ﷺ) أَلاَ أُنِبِئُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالُکُمْ وَأَزْکَاہَا عِنْدَ مَلِیْکِکُمْ وَأَرْفَعَہًا فِیْ دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٌ لَّکُمْ مِنْ إِنْفَاق الذَّہَبِ وَالْوَرَقِ وَخَیْرُ لَّکُمْ مِنْ اأنْ تَلْقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَہُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ ؟ قَالُوْا بَلٰی قَالَ ذِکْرَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ (رض) مَاشَیءٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ)[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی فضل الذکر] ” حضرت ابو درداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کیا میں تم کو وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے درجات کو دوسرے اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور راہ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لیے بہتر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں کی گردنیں مارو اور وہ تمھاری گردنیں ماریں؟۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کیوں نہیں اللہ کے رسول ضرور بتلائیں فرمایا وہ اللہ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے کہا اللہ کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ کے عذاب سے بچانے والی نہیں ہے۔“ مسائل: 1۔ کفار معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گمراہ رکھتا اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ 3۔ اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ 4۔ ایمان دار اور صالح کر دار لوگ اللہ کے ہاں خوش وخرم ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن : ذکر کا حکم اور فائدہ : 1۔ اللہ کے ذکر کے ساتھ دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ (الرعد :28) 2۔ صبح اور شام کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو۔ (آل عمران :41) 3۔ اے ایمان والو! کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ (الاحزاب :41) 4۔ اللہ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعۃ:10) 5۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب :35) 6۔ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ (البقرۃ :152)