سورة الرعد - آیت 21

وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ جو اس چیز کو ملاتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ اسے ملایا جائے اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور برے حساب کا خوف رکھتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : ” اللہ“ کے عہد کی پاسداری کے ساتھ آپس کے تعلقات اور عہد کی پاسداری کا حکم۔ بصیرت اور عقل سلیم رکھنے والے لوگ اپنے رب کے ڈر اور قیامت کے برے حساب کے خوف سے رشتوں کو جوڑتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ جن کے جوڑنے اور احترام کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرجاؤ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کی بیوی کو پیدا فرمایا پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیں۔ بس اللہ سے ڈرو۔ جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داریوں کو توڑنے سے بھی بچو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر وقت نگرانی کر رہا ہے۔ (سورۃ النساء :1) اللہ کے بندوں کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی مفاد کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ کے ڈر کی بنا پر رشتہ داریوں کا خیال اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ ارحام کی واحد رحم ہے جس کے بارے میں نبی کریم (ﷺ) یوں ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ لَیْسَ الْوَاصِلُ بالْمُکَافِئِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْٓ إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَہَا )[ رواہ الترمذی : کتاب البر والصلۃ، باب مَا جَآءَ فِیْ صِلَۃِ الرَّحِم] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا برابری کرنے والا صلہ رحم نہیں ہے۔ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے تعلق توڑا جائے تو وہ اسے جوڑنے کی کوشش کرے۔“ (وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () خَلَقَ اللّٰہُ الْخَلْقَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْہُ قَامَتِ الرَّحِمُ فَاَخَذَتْ بِحَقْوَیِ الرَّحْمٰنِ فَقَاَل مَہْ قَالَتْ ھٰذَا مَقَامُ الْعَآئِذِ بِکَ مِنَ القَطِیْعَۃِ قاَلَ اَلاََترْضَیْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَّصَلَکِ وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکِ قَالَتْ بَلٰی یَا رَبِّ قَالَ فَذَاکِ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب ﴿وَتُقَطِّعُوْٓا اأَرْحَامَکُمْ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ جب مخلوق کو پیدا فرما کر فارغ ہوا تو ” رحم“ (رشتہ داری) کھڑی ہوگئی۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑلیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا‘ یہ اس شخص کا مقام ہے جوتیرے ساتھ قطع رحمی سے پناہ مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس شخص کو اپنے قریب کروں جو تجھے کو ملاتا ہے اور اس شخص سے قطع تعلق کروں جو تجھے ترک کرتا ہے۔ رحم (رشتہ داری) نے عرض کیا‘ پروردگار کیوں نہیں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تیرے لیے ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ () یَقُوْلُ مَنْ سَرَّہٗٓ أَنْ یُّبْسَطَ لَہٗ رِزْقُہٗ أَوْ یُنْسَأَ لَہٗ فِیْٓ أَثَرِہِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب مَنْ أَحَبَّ الْبَسْطَ فِی الرِّزْقِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا‘ جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے‘ کہ اس کے رزق میں برکت اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو‘ اسے صلۂ رحمی کرنی چاہیے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ )[ رواہ البخاری : باب إِکْرَام الضَّیْفِ وَخِدْمَتِہِ إِیَّاہُ بِنَفْسِہِ ] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے۔ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ جو شخص اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ بھلائی والی بات کہے یا خاموش رہے۔“ مسائل: 1۔ آپس میں صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ 3۔ باہمی تعلقات کا احترام کرنا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اور برے حساب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے اوصاف : 1۔ اللہ اور سخت حساب سے ڈرتے ہیں۔ (الرعد :21) 2۔ مومن اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ (الرعد :20) 3۔ نیک لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ (الرعد :21) 4۔ اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے، پوشیدہ اور اعلانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے اور برے سلوک کو حسن سلوک سے ٹالتے ہیں۔ (الرعد :22)