لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ
اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے آنے والے کئی پہرے دار ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بے شک اللہ نہیں بدلتا جو کسی قوم میں ہے، یہاں تک کہ وہ اسے بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرلے تو اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی مددگار نہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے براہ راست بندے کی نگرانی کرنے کے علاوہ ہر انسان پر محافظ بھی مقرر کر رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کی ابتدا اور انتہا، اس کے ظاہر اور باطن سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس نے ہر بات اپنے ہاں لوح محفوظ پر ثبت کر رکھی ہے۔ اس کے باو جود اس نے ہر انسان پر فرشتے تعینات کر رکھے ہیں جو اس کے تمام امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ جن میں محافظ فرشتوں کے ساتھ کراماً کاتبین بھی ہیں۔ جو صبح وشام انسان کی تمام حرکات و سکنات کا اندراج کرتے ہیں اور ان کے ساتھ محافظ فرشتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہر انسان کے آگے پیچھے رہتے ہیں اور ہر انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن جب اللہ کا حکم غالب آتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مقابلے میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اس طرح انسان پر اللہ کا لکھا غالب آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا۔ جب تک وہ اپنی حالت خود نہیں بدلتی۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو برے اعمال کے بدلے اس کے برے انجام میں مبتلا کرتا ہے تو پھر اس کے عذاب کو ٹالنے اور اس قوم کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس فرمان کے مفسرین نے دو مفہوم اخد کیے ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ اپنی عطا کر وہ نعمت کو اس وقت تک زحمت میں تبدیل نہیں کرتاجب تک کوئی قوم اپنے کردار کی وجہ سے اسے تبدیل نہ کرے۔ 2۔ ” جب تک کوئی قوم اپنی حالت سنوار نے کی کوشش نہ کرے اللہ تعالیٰ بھی اس کی بری عادت کو نیکی میں تبدیل نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کا اصول ہے کہ جو لوگ اس کے راستے میں کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے ضرور راستے کھول دیتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ نیک کام کرنے والوں کا ساتھی ہے۔“ (الروم :69) اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ ” ہم نے انسان کو کفر و شرک کا راستہ بتلا یا ہے یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔“ (الدھر :3) اس فرمان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل دیتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو اس وقت سے جانتا ہے جب یہ ماں کے رحم میں تھا اور اس سے انسان کی کوئی خفیہ اور ظاہر بات پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ انسان کی راتوں اور دنوں سے واقف ہے۔ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جب تک انسان عقیدہ توحید کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس وقت تک اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ کرامًا کاتبین کی ڈیوٹی : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَتَعَاقَبُوْنَ فِیْکُمْ مَلَآئِکَۃٌ باللَّیْلِ وَمَلَآئِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَیَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِیْنَ بَاتُوْا فِیْکُمْ فَیَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَیَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ وَاٰتَیْنٰھُمْ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تم میں رات اور دن کو آگے پیچھے فرشتے آتے ہیں۔ اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر رات والے فرشتے چلے جاتے ہیں تو ان سے پروردگار سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ اوہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس آئے تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے۔ انسان پر ایک فرشتہ اور ایک شیطان مقرر ہے : (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اِلَّا وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِیْنُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَ قَرِیْنُہٗ مِنَ الْمَلآئِکَۃِ قَالُوْا وَاِیَّاکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَ اِیَّایَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ فَلَا یَاْمُرُنِیْ اِلَّا بِخَیْر)[ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا کیوں نہیں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی جس سے وہ میرے تابع ہوچکا ہے۔ وہ مجھے نیکی کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی حفاظت کے لیے فرشتے کو مقرر کیا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ تب تلک کسی کے حالات نہیں بدلتا جب تک وہ خود تبدیل کرنے کا ارادہ نہ کرے۔ 3۔ اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہو سکتا۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اس کا حکم کوئی نہیں ٹال سکتا : 1۔ جب اللہ کسی قوم پر مصیبت نازل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں اور نہ کوئی بچانے والاہے۔ (الرعد :11) 2۔ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (الرعد :34) 3۔ اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑلیا اور انہیں کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ ( المومن :21) 4۔ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (ہود :43) 5۔ قوم لوط پر نہ ٹلنے والا عذاب آیا ہے۔ (ھود :76) 6۔ اللہ کی گرفت بہت سخت ہوا کرتی ہے۔ (البروج :12)