وَإِن تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور اگر تو تعجب کرے تو ان کا یہ کہنا بہت عجیب ہے کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم یقیناً ایک نئی پیدائش میں ہوں گے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کا انکار کیا اور یہی ہیں جن کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور یہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی لا تعداد قدرتوں کو دیکھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے باوجود یہ لوگ اس کی قدرت کا انکار کرتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمیں کون اٹھائے گا۔ یہ کتنی بڑی حقیقت ہے جس پر یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ایک چھوٹے سے بیج سے کس قدر تناور درخت پیدا کرتا ہے، پھر غور کریں کہ کتنے بیج ہیں جو کئی کئی سال تک زمین میں دفن رہتے ہیں لیکن اگنے کا نام نہیں لیتے۔ جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے تو زمین سے نکل کر بڑے بڑے درختوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو متعین مدت کے بعد اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آفاق، جمادات اور نباتات کے حوالے سے اپنی صفات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ کفار اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت اور صفات پر غور وفکر نہیں کرتے۔ اسی کا نتیجہ ہے یہ کہتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ کس طرح اٹھائے جائیں گے۔ یہ بڑی نادانی اور حیرت انگیز بات ہونے کے ساتھ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرنا ہے جو لوگ اللہ کی ذات اور صفات کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن ان کی گردنوں میں جہنم کے طوق پہنائے جائیں گے اور انہیں ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہنا ہوگا۔ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی زندگی بےیقینی کی کشمکش میں جکڑی رہتی ہے۔ توحید اور آخرت کا عقیدہ آپس میں اس طرح جڑے ہوئے اور لازم ملزوم ہیں کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کا دعوے دار ہے مگر آخرت کا انکار کرتا ہے تو اس کا صاف معنیٰ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عادل، منصف اور جزاوسزا کا مالک تسلیم نہیں کرتا۔ حالانکہ آخرت کا برپا ہونا اور ہر انسان کا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا نہ صرف ہر آسمانی کتاب سے ثابت ہے بلکہ عام عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قیامت کا دن ضرور برپا ہونا چاہیے تاکہ نیک کو اس کی نیکی اور برے کو اس کی برائی کا بدلہ چکایا جائے۔ اگر آخرت کا برپا ہونا یقینی نہ ہو تو دنیا میں کتنے ظالم ہوئے اور ہوں گے جنہیں منصف سے منصف عدالت بھی پوری پوری سزا نہیں دے سکتی۔ مثال کے طور پر ایک آدمی دس آدمیوں کو قتل کرتا ہے تو اسے عدالت ایک قتل کے بدلے قتل کرسکتی ہے باقی مقتولوں کی سزا اسے کس طرح دی جائے گی؟ ایسے ظالم کو صرف قیامت کے دن ہی ٹھیک ٹھیک سزادی جاسکتی ہے کیونکہ وہاں موت کا تصور ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح دنیا میں کتنے ہی ایماندار اور صالح کردار لوگ ہوئے اور ہوں گے جنہیں دنیا میں ان کے کردار اور خدمات کا اس طرح صلہ نہ مل پایا جس کا وہ استحقاق رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں کو مرنے کے بعد دائمی زندگی سے نوازتے ہوئے نہ صرف ان کے صالح کردار کا اجردیا جائے گا بلکہ رب کریم اپنی طرف سے کئی گنا اجرعنایت فرمائے گا اور وہ ہمیشہ ہمیش جنت میں عیش وعشرت کی زندگی بسر کریں گے ان دلائل کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی ذات اور صفات کو مانتا ہے اس کے لیے آخرت پر یقین رکھنا لازم ہے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ (ﷺ) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِیْ خَطِیْٓئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ) [ رواہ مسلم : باب الدَّلِیلِ عَلٰٓی أَنَّ مَنْ مَّاتَ عَلَی الْکُفْرِ لاَ یَنْفَعُہٗ عَمَلٌ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا، مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا یہ اعمال اس کے لیے سود مند ہوں گے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی نہیں کہا تھا اے میرے رب ! میری خطائیں قیامت کے دن بخش دے۔“ مسائل: 1۔ آخرت کا انکار کرنے والے کافر ہیں۔ 2۔ کفار بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔ 3۔ کافروں کی گرد نوں میں طوق پہنائے جائیں گے۔ 4۔ کافر جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن : مرنے کے بعد جی اٹھنے کا ثبوت : 1۔ تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ (الرعد :5) 2۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا پھر اس کی طرف ہی لوٹائیں جائیں گے۔ (الانعام :36) 3۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام کو اٹھائے گا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کے متعلق بتلائے گا۔ (المجادلۃ:6)