بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورۃ الرعد : اس سورۃ کا نام اس کی آیت 13سے لیا گیا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چمکنے اور کڑکنے والی آسمانی بجلی بھی اللہ کی تسبیح پڑھتی ہے۔ یہ سورۃ چھ رکوع اور 43آیات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان رات اور دن باغات اور نباتات کے حوالے سے اپنی وحدت کا ثبوت دیتے ہوئے انسان کو یہ بات باور کروائی ہے کہ اے انسان ! اللہ تعالیٰ تجھے اس وقت سے جانتا ہے جب تو اپنی ماں کے رحم میں تھا۔ وہ رحم میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے بھی واقف ہے۔ اس کے سامنے غائب اور ظاہر دونوں برابر ہیں۔ وہ تیری جلوت اور خلوت کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ اس نے ہر کسی پر نگران اور محافظ مقرر کر رکھے ہیں۔ سب کچھ جاننے اور ہر چیز پر قدرت رکھنے کے باوجودوہ لوگوں کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو بدلنے کا عزم نہ کریں۔ اس نے انسان کو اپنی حالت بدلنے یا نہ بدلنے کے بارے میں اختیار دے رکھا ہے۔ انسان اس اختیار سے غلط فائدہ اٹھا کر اپنے رب کا نافرمان ہوجاتا ہے۔ حالانکہ انسان اس قدر کمزور ہے کہ وہ چمکنے اور کڑکنے والی بجلی کی تاب نہیں لا سکتا۔ بجلی کی جس آواز سے یہ کانپتا ہے حالانکہ وہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔ توحید کے دلائل دینے کے بعد فرمایا کہ لوگوں تک حق پہنچ چکا ہے۔ خدا کے نافرمانوں کی حالت اس شخص کی مانند ہوچکی ہے۔ جو پانی پر کھڑا ہو کر ہاتھ پھیلا کر پانی کو آواز پر آواز دیتا ہے لیکن اس کے باوجود پانی اس کی زبان تک نہیں پہنچتا۔ یہی حالت خدا کے نافرمان اور مشرک کی ہوا کرتی ہے کہ اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی توحید کو سمجھنا چاہے تو ہر قسم کے دلائل اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ اگر نہ سمجھنا چاہے پانی کی طرح عقیدہ توحید کی عظیم نعمت خود اس تک نہیں پہنچ سکے گی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی قدرت قریب ہونے کے باوجود پھر بھی مشرک دوسروں کو پکارتا ہے۔ حالانکہ وہ نفع و نقصان پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ عقیدۂ توحید خالص سونے کی مانند ہے اور شرک جھاگ اور راکھ کے برابر ہے جس طرح جھاگ اور راکھ کا کوئی فائدہ نہیں اسی طرح شرک کرنے والے کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ جس طرح جھاگ اور راکھ کچھ مدت کے بعد اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔ اسی طرح مشرک اور کافر اپنے اچھے اعمال کا نتیجہ بھی کھوبیٹھیں گے۔ اس مثال کے بعد اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اور لوگوں کے ساتھ عہد کی وفا کا حکم دیا ہے۔ پھر یہ بات ارشاد فرمائی کہ صاحب ایمان لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور ذکر پر سکون پاتے ہیں۔ سورت کے آخر میں قرآن مجید کی عظمت کا ذکر کیا گیا ہے۔