حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ
یہاں تک کہ جب رسول بالکل ناامید ہوگئے اور انھوں نے گمان کیا کہ بے شک ان سے یقیناً جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کے پاس ہماری مدد آگئی، پھر جسے ہم چاہتے تھے وہ بچا لیا گیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید، انبیاء کی نبوت اور بشریت کے واضح دلائل آنے کے باوجود کفار نے انبیاء کے ساتھ مقابلہ اور مکالمہ جاری رکھا۔ یہ کشمکش اس قدر شدید تھی کہ انبیاء (علیہ السلام) کو یقین ہونے لگا کہ انہیں یکسر طور پر جھٹلا دیا گیا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوئی۔ اس آیت مبارکہ کے ترجمہ اور تفسیر میں اہل علم کو بڑی الجھن پیش آئی ہے۔ تفسیر کے حوالے سے قرآن مجید کا یہ مشکل ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔ ﴿حَتی اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا ﴾[ یوسف :111] ” یہاں تک کہ رسول مایوس ہوگئے اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ جھٹلادیے گئے ہیں۔“ بعض مترجمین نے ﴿قَدْکُذِبُوْ ا﴾ کا ترجمہ کیا ہے کہ انبیاء نے خیال کیا ان کے ساتھ جھوٹ بولا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ کی تین طرح تفسیر کی گئی ہے۔ 1۔ جب اللہ کی رحمت سے رسول مایوس ہوگئے تو انہوں نے خیال کیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ بے شک کچھ لوگوں نے صرف نحو کے حوالے سے یہ معنی لینے کی کوشش کی ہے کہ لیکن انبیاء کے مرتبہ و مقام اور ایمان و ایقان کے پیش نظر یہ ترجمہ لینا مناسب نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید نے اسی سورۃ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حوالے سے بتلایا ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی بنیامین کو مصر میں روک لیا اور باقی بھائی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آئے تو انہوں نے سارا معاملہ سن کر فرمایا جاؤ۔ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ اللہ کی رحمت سے مایوس صرف کافر ہی ہوا کرتے ہیں۔ (یوسف :87) اس بنیاد پر مذکورہ بالا ترجمہ اور مفہوم لینا نہایت ہی غلط ہے۔ 2۔ دوسری جماعت نے ﴿قَدْکُذِبُوْاوَظَنُّوْا﴾ یہ مفہوم لیا ہے کہ جب اللہ کے رسول کفار کے ایمان نہ لانے سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے گمان کیا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا ہے تب اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوئی اور کفار کو تہس نہس کردیا گیا۔ 3۔ تیسری جماعت نے اس سے مرادمومن لیے ہیں کہ جب ایمان والوں کو یقین ہوگیا کہ ان کے ساتھ جھوٹ بولا گیا ہے۔ باربار مطالبہ کے باوجود عذاب نہ آیا تو کفار نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ عذاب کا جو وعدہ کیا جاتا رہا ہے وہ جھوٹ تھا۔ کفار کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر ایمانداروں کے دلوں میں یہ گمان پیدا ہوا کہ واقعی عذاب کا وعدہ جھوٹا ثابت ہو رہا ہے۔ یعنی مومنوں نے انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں ایسا خیال کرنا شروع کردیا۔ تب اللہ کا عذاب آن پہنچا۔ یاد رہے کہ یہاں ظن کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ لفظ عربی میں گمان اور یقین دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں اس کا معنی گمان لیا جائے۔ مومنوں کے دل میں ایسا گمان پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ یاد رہے گمان پیدا ہونے پر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک دوسرے نمبر والی تفسیر بہتر ہے۔ (اللہ اعلم ) (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِیْ مَا وَسْوَسَتْ بِہٖ صُدُوْرُھُا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِہٖ اَوْ تَتَکَلَّمْ)[ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ: بَاب الطَّلاَقِ فِی الإِغْلاَقِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کے برے خیالات کو معاف کردیا ہے بشرطیکہ ان کے مطابق عمل اور گفتگو نہ کی جائے۔“ حضرت عائشہ (رض) کی تفسیر : 3۔ حضرت عائشہ (رض) کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے اس آیت کی تفسیر بالخصوص ﴿قَدْکُذِبُوْا﴾ کے الفاظ کی تشریح کے بارے میں سوال کیا جس کا تذکرہ حضرت امام بخاری (رح) نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ (عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ لَہٗ وَہُوَ یَسْأَلُہَا عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ تَعَالَی ﴿حَتّٰی إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ﴾ قَالَ قُلْتُ أَکُذِبُوا أَمْ کُذِّبُوْا قَالَتْ عَاءِشَۃُ کُذِّبُوْا قُلْتُ فَقَدِ اسْتَیْقَنُوْٓا أَنَّ قَوْمَہُمْ کَذَّبُوہُمْ فَمَا ہُوَ بالظَّنِّ قَالَتْ أَجَلْ لَعَمْرِیْ لَقَدِ اسْتَیْقَنُوْا بِذَلِکَ فَقُلْتُ لَہَا وَظَنُّوْٓا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْا قَالَتْ مَعَاذ اللّٰہِ لَمْ تَکُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذٰلِکَ بِرَبِّہَا قُلْتُ فَمَا ہٰذِہِ الآیَۃُ قَالَتْ ہُمْ أَتْبَاع الرُّسُلِ الَّذِیْنَ آمَنُوْٓا بِرَبِّہِمْ وَصَدَّقُوْہُمْ، فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْبَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْہُمُ النَّصْرُ حَتَّی اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ مِمَّنْ کَذَّبَہُمْ مِنْ قَوْمِہِمْ وَظَنَّتِ الرُّسُلُ أَنَّ أَتْبَاعَہُمْ قَدْ کَذَّبُوہُمْ جَآءَ ہُمْ نَصْرُ اللّٰہِ عِنْدَ ذٰلِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قول حتی اذاستیاس] ” ابن شہاب کہتے ہیں۔ مجھے عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے اس سے فرمایا۔ وہ اللہ کے اس فرمان ﴿حَتّٰی إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ﴾ کے بارے میں سوال کررہے تھے۔ حضرت عروہ کہتے ہیں میں نے کہا کیا وہ جھوٹ بولے گئے یا پھر جھٹلائے گئے۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ وہ جھٹلائے گئے۔ میں نے عرض کی کیا انہوں نے یقین کرلیا کہ وہ جھٹلائے گئے پھر ظن کیا ہے ؟ اس نے کہا ہاں میری عمر کی قسم ! انہوں نے اس بات کا یقین کرلیا۔ میں نے کہا تو پھر انبیاء نے بھی یقین کرلیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اللہ کی پناہ رسول اپنے رب کے بارے میں ایسا گمان نہیں کرسکتے۔ میں نے پھر پوچھا تو اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے رسولوں کی اتباع اور تصدیق کی۔ جب طویل مدت تک مومنوں پر آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوگئی۔ انبیاء (علیہ السلام) کفار کے ایمان لانے سے نا امید ہوگئے۔ (یعنی جب کفار کی طرف سے انبیاء مایوس ہوگئے اور ایمان والوں نے یہ خیال کیا کہ ان پر ایمان لانے والے بھی گمان کرنے لگے ہیں کہ شاید انبیاء ( علیہ السلام) نے جھوٹ بولا ہے) انہوں نے گمان کرلیا کہ ان کے متبعین نے ان کو جھٹلا دیا ہے تو اس وقت ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی مدد آئی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی آزمائش کرتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنی مدد نازل فرماتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے عذاب سے نجات عطا فرماتا ہے۔ 4۔ مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ نیک بندوں کی آزمائش فرماتا ہے : 1۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے چند باتوں کے ساتھ آزمایا۔ (البقرۃ:124) 2۔ مومنوں کو سخت آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا۔ (الاحزاب :11) 3۔ ہم تمہیں آزمائیں گے تاکہ جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں میں امتیاز ہو سکے۔ (محمد :31) 4۔ اگر اللہ چاہتاتو تمہاری ضرور مدد فرماتا۔ لیکن اللہ بعض کو بعض کے ساتھ آزماتا ہے۔ (محمد :4) 5۔ اللہ تمہیں تمہارے مالوں اور جانوں کے ساتھ ضرور آزمائے گا۔ (آل عمران :186) 6۔ حضرت ابراہیم کا حضرت اسماعیل کو ذبح کرنابہت بڑی آزمائش تھی۔ (الصٰفٰت :106) 7۔ اللہ نے پہلے لوگوں کو آزمایا اور تمھیں بھی آزمائے گا۔ (العنکبوت :2)