قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ
انھوں نے کہا ہم اس کے باپ کو اس کے بارے میں ضرور آمادہ کریں گے اور بے شک ہم ضرور کرنے والے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 61 سے 62) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے فرمان کے جواب میں ان کے بھائیوں کا چھوٹے بھائی کو ساتھ لانے کا وعدہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کی بہترین مہمان نوازی کی اور انھیں رخصت کرتے ہوئے صاف صاف فرمادیا کہ اگر تم اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ نہ لائے تو ادھر کا رخ نہ کرنا۔ ان کے بھائیوں نے ان سے الوداع ہوتے ہوئے عرض کی کہ ہم اسے ساتھ لانے کے لیے اپنے والد کو آمادہ کریں گے کہ وہ ضرور اسے ہمارے ساتھ بھیجے۔ ہم ہر صورت ایسا کریں گے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ تاکید انہیں اس لیے کی تاکہ حقیقی بھائی سے ان کی ملاقات ہو اور انہیں براہ راست اپنے والد گرامی کے حالات سے آگاہی ہوجائے۔ اسی لیے وہ مختلف انداز میں تاکید کرتے ہیں کہ اپنے سوتیلے بھائی کو آئندہ ساتھ لانا اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے خادموں سے فرمایا کہ ان کی رقم ان کے سامان میں رکھ دی جائے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے غلہ کے ساتھ ان کی معمولی رقم درج ذیل وجوہات کی وجہ سے واپس کی۔ 1۔ قحط زدہ اور کنگال لوگ تھے۔ اس لیے ان کی رقم واپس کی گئی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قحط سالی کے وقت حکومت کا فرض ہے کہ وہ حتی المقدور لوگوں کو بلا معاوضہ غلہ مہیا کرے۔ 2۔ یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اور مستحق بھی تھے۔ اس لیے ان کا زیادہ حق بنتا تھا کہ ان کی خدمت کی جاتی۔ 3۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے غلے کی رقم اس لیے بھی واپس کی تاکہ ان کے بوڑھے باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ساتھ تعاون ہوا اور وہ خوش ہوجائیں۔ 4۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے تعاون کا یہ مقصد بھی تھا تاکہ اس بنا پر دوسری بار مصر آتے ہوئے میرے بھائی کو ضرور ساتھ لائیں۔ گھر پہنچ کر غلّہ کی قیمت دیکھتے ہی ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اپنے والد سے کہنے لگے کہ اباجان! ہمیں اور کیا چاہیے ہماری رقم بھی واپس کردی گئی ہے لہٰذا آپ چھوٹے بھائی کو ضرور اجازت دیں تاکہ ہم پھر غلہ لائیں۔ ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے۔ اس کے جانے کی وجہ سے ہمیں ایک اونٹ مزید غلہ مل جائے گا اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) گھر کی تنگدستی، بیٹوں کے اصرار اور مصر کے بادشاہ کا حسن سلوک دیکھ کر دل ہی دل میں ایک ٹیس محسوس کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ٹھنڈی سانس بھر کر کہتے ہیں۔ اللہ حفاظت کرنے والا وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے تو پہلے بھی یوسف کے بارے میں بڑی تاکیدیں کیں تھیں مگر حقیقی حفاظت تو اللہ کے اختیار میں ہے جب وہ اپنا کرم فرمائے گا تو ہماری پریشانیاں خودبخود ختم ہوجائیں گی۔ مکہ والوں کا نبی کریم (ﷺ) کی خدمت میں پیش ہونا : (عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ فَقَالَ إِنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) لَمَّا رَأٰی مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا قَال اللَّہُمَّ سَبْعٌ کَسَبْعِ یُوْسُفَ فَأَخَذَتْہُمْ سَنَۃٌ حَصَّتْ کُلَّ شَیْءٍ حَتّٰی أَکَلُوا الْجُلُوْدَ وَالْمَیْتَۃَ وَالْجِیَفَ، وَیَنْظُرَ أَحَدُہُمْ إِلَی السَّمَآءِ فَیَرَی الدُّخَانَ مِنَ الْجُوْعِ، فَأَتَاہُ أَبُوْ سُفْیَانَ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّکَ تَأْمُرُ بِطَاعَۃِ اللّٰہِ وَبِصِلَۃِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ قَدْ ہَلَکُوْا، فَادْعُ اللَّہَ لَہُمْ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی ﴿فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ﴾إِلٰی قَوْلِہٖ ﴿عَآئِدُونَ﴾ ﴿یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی﴾) [ رواہ البخاری : باب دُعَآء النَّبِیِّ (ﷺ) اجْعَلْہَا عَلَیْہِمْ سِنِیْنَ کَسِنِیْ یُوسُفَ ] ” مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم عبداللہ (رض) کے پاس تھے انھوں نے بیان کیا کہ جب نبی (ﷺ) نے دیکھا کہ مکہ کے لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ (ﷺ) نے دعا کی اے اللہ ! ان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قحط کی طرح قحط نازل فرما دے اس کے بعد ان کو قحط سالی نے آلیا ہر چیز ختم ہوگئی یہاں تک کہ وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہوگئے۔ جب ان میں سے کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے بھوک کی وجہ سے دھواں نظر آتا۔ ابو سفیان آپ (ﷺ) کے پاس آیا اور کہنے لگا اے محمد! آپ اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ﴿فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْ تِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ﴾ سے لے کر ﴿عَآئِدُوْنَ﴾ ﴿یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَیٰ﴾ تک۔“ مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے باپ کو اپنے چھوٹے بھائی کے بارے میں یقین دہائی کروائی۔ 2۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کی نقدی لوٹا دی۔