يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ
یوسف! اے نہایت سچے! ہمیں سات موٹی گائیوں کی تعبیر بتا، جنھیں سات دبلی کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشوں اور دوسرے خشک خوشوں کی بھی، تاکہ میں لوگوں کے پاس واپس جاؤں، تاکہ وہ جان لیں۔
فہم القرآن : (آیت 46 سے 49) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ رہائی پانے والے قیدی کا جیل میں آنا اور یوسف (علیہ السلام) کو آواز دینا۔ بادشاہ کا غلام جو حضرت یوسف کا قید میں ساتھی تھا بھاگم بھاگ یوسف (علیہ السلام) کی بیرک کے دروازے پر پہنچ کر آواز دیتا ہے کہ اے سچ بولنے والے یوسف ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں پتلی دبلی سات گائیں کھائے جا رہی ہیں اور سات سبزو شاداب بالیاں ہیں اور سات بالیاں سوکھی ہوئی ہیں۔ ازراہ کرم مجھے ان کی حقیقت بتلا تاکہ میں واپس جا کرلوگوں کو بتلاؤں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے فرمایا ” کہ پہلے تم سات سال کھیتی باڑی کرو گے۔ ان سات سالوں میں تمہاری فصلیں خوب اناج دیں گی۔ مگر تمھیں یہ کرنا ہوگا کہ جو تمہارے کھانے سے بچ جائے اس اناج کو ڈالیوں میں ہی رہنے دو۔ اس کے بعد سات سال قحط سالی کے ہوں گے اور تم محفوظ کیا ہوا غلہ استعمال کرو گے۔ سوائے اس کے کہ جو اس میں سے بچ جائے۔ اس کے بعد اگلا سال نہایت ہی سبزو شاداب اور خوشحالی کا ہوگا اور تم لوگ خوب پھلوں کا رس نچوڑوگے۔“ معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے لوگ پھلوں کا جوس بھی پیا کرتے تھے۔ سابقہ قیدی یعنی سرکاری اہلکار کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں آنا اور ان سے بادشاہ کے خواب کے بارے میں تعبیر پوچھنا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بلا تامل اسے نہ صرف خواب کی تعبیر بتلانا بلکہ نہایت فراخ دلی کے ساتھ ماضی کے کسی واقعہ کو ذہن میں رکھے بغیر بادشاہ کی ذہنی الجھن اور قوم کی مشکل کا حل پیش کرنا بے مثال اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے۔ ورنہ سب سے پہلے رہا ہونے والے سرکاری اہلکار کو کہتے کہ تم کیسے آدمی ہو کہ میں نے اپنی مظلومیت کے بارے میں تجھے بادشاہ کے لیے ایک پیغام دیا تھا مگر تو نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) یہ بھی فرما سکتے تھے کہ پہلے جو مجھ پر زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا مداوا کرو۔ پھر میں تمہیں خواب کی تعبیر اور اس کا حل بتلاؤں گا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) شکایت کا ایک حرف بھی زبان پر نہیں لائے۔ فی الفور اسے خواب کی تعبیر اور مستقبل میں قوم کو درپیش آنے والی مصیبت کا حل بتلایا۔ اس موقع پر یہ بات بھی کھل جاتی ہے کہ رہا ہونے والا سرکاری ملازم پوری طرح سمجھ چکا تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) قول کے سچے اور کردار کے پکے ہیں۔ اس لیے اس نے آپ ( علیہ السلام) کو ” الصدیق“ کہہ کر پکارا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق کا مقام انبیاء کے بعد بیان کیا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نہ صرف الصدیق تھے بلکہ اللہ کے جلیل القدر نبی اور انبیاء کی اولاد تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پڑدادا حضرت ابراہیم کا لقب بھی صدیق ہے۔ ” اس کتاب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجیے بلاشبہ وہ صدیقنبی تھا۔“ (مریم :41) ” اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ کیجیے بلاشبہ وہ صدیق نبی تھے۔“ (مریم :56) ” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایمان لاتے ہیں وہ الصدیق ہیں۔“ (الحدید :19) خوشحالی کی قدر کرنی چاہیے : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ )[ رواہ الحاکم] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) ایک آدمی کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے آپ نے فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فارغ وقت کو مصروف ہونے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔“ مسائل: 1۔ خاندانی لوگ اپنی ذات کے بجائے دوسروں کی خیر خواہی کا خیال رکھتے ہیں۔ 2۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قحط سے بچنے کی تدبیر بتائی۔ 3۔ خاندانی لوگ اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : صدیقین اور صادقون کا تذکرہ : 1۔ اے سچے یوسف! ہمیں تعبیر بتلا۔ (یوسف :46) 2۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کی وہی سچے ہیں۔ (الحشر :8) 3۔ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلا دے گا۔ (الاحزاب :24) 4۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ (النساء :69) 5۔ قیامت کے دن سچوں کو ان کی سچائی کا صلہ ملے گا۔ (المائدۃ:119) 6۔ سچے مومن وہ ہیں جو اپنے مال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جدوجہد (جہاد) کرتے رہتے ہیں۔ (الحجرات :15)