قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ
انھوں نے کہا اے ہمارے باپ! تجھے کیا ہے کہ تو یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتا، حالانکہ بے شک ہم یقیناً اس کے خیرخواہ ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 11 سے 14) ربط کلام : سازش پر متفق ہونے کے بعد برادران یوسف کا اپنے باپ کی خدمت میں پیش ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ لے جانے کا مطالبہ کرنا۔ برادران یوسف اپنے باپ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابا جان کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد نہیں کرتے؟ حالانکہ ہم اس کے بارے میں نہایت ہی خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ اسے ہمارے ساتھ بھیجئے تاکہ کھلی فضا میں یوسف سیرو سیاحت اور کھیل کود میں ہمارے ساتھ شریک ہو۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔ بیٹوں کے مطالبہ کے جواب میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس بات کا اظہار کیا کہ میں خدشہ محسوس کرتا ہوں کہ تم یوسف کو اپنے ساتھ لے جانے کے بعد غفلت کا مظاہرہ کرو اور کوئی بھیڑیا یوسف کو کھا جائے۔ باپ کے جواب میں سب کے سب کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے یوسف کو بھیڑیا کھا جائے۔ جبکہ ہم سب کے سب اکٹھے اور طاقتور ہیں۔ اگر یوسف کو ہمارے جیتے جی کوئی نقصان پہنچا تو ہم سے بڑھ کر کون نقصان پانے والا ہوگا۔ عُصْبَۃ کا معنیٰ گھوڑوں، پرندوں کا جھنڈ اور مردوں کی اس جماعت کو بھی کہا جاتا ہے جو دس افراد پر مشتمل اور ایک دوسرے کے ممدو معاون ہوں۔ قرآن مجید کے الفاظ اس حقیقت کی نقاب کشائی کر رہے ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں اپنے بیٹوں کے بارے میں یوسف (علیہ السلام) کے متعلق منفی خیالات کا احساس موجود تھا۔ اور ان کے بیٹوں کو بھی احساس تھا کہ یوسف کے بارے میں ہمارے والد ہم پر پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ جس بنا پر انہوں نے مثبت کے بجائے منفی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا اے ہمارے والد آپ یوسف کے بارے میں ہم پر کیوں اعتماد نہیں کرتے؟ ان کے انداز گفتگو سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ انہوں نے عاجزانہ اور مؤدبانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے دباؤ ڈالنے کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے باپ کو اطمینان دلانے اور اپنی سازش کو کامیاب کرنے کے لیے پے درپے ایسے الفاظ استعمال کیے کہ جن سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یقین آجائے اس لیے وہ بار بار کہتے ہیں کہ یقین فرمائیں کہ ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔ یقین دہانیوں کے باوجود حضرت یعقوب (علیہ السلام) ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ لیکن پیغمبرانہ اور پدری اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فقط اتنا ہی فرماتے ہیں کہ میرے بیٹو! میں ڈرتا ہوں کہیں تمہاری غفلت کی وجہ سے یوسف کو بھیڑیا نہ کھا جائے ! مسائل: 1۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے بظاہر ان کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ 2۔ یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق خوف کا اظہار کیا۔ 3۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے غلط انداز میں باپ کو اطمینان دلایا۔ تفسیر بالقرآن : نقصان پانے والے لوگ : 1۔ انہوں نے کہا اگر یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو ہم نقصان پانے والے ہوجائیں گے۔ (یوسف :14) 2۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف :23) 3۔ زمین میں فساد کرنے والے لوگ خسارہ اٹھائیں گے۔ (البقرۃ :27) 4۔ اللہ کفار کے اعمال دنیا میں تباہ کرے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (التوبۃ:69) 5۔ جس نے اللہ کے سوا شیطان کو دوست بنالیا اس نے بہت نقصان پایا۔ (النساء :119) 6۔ ان لوگوں نے نقصان پایا جنہوں نے اللہ کی ملاقات کی تکذیب کی۔ (الانعام :31)