سورة البقرة - آیت 152

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

سو تم مجھے یاد کرو، میں تمھیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : نعمتوں کے بدلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور شکر کرنا چاہیے۔ بیت اللہ کو مرکز بنانا‘ امّتِ مسلمہ کو پیشوائی کے منصب پر فائز کرنا، تبدیلی سے قبل کی نمازوں کا اجر عطا فرمانا، بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دینے کے بجائے صرف اس سمت رخ کرنے کی سہولت عنایت فرمانا، نبی آخر الزماں {ﷺ}کی صورت میں مہربان مربیّ اور عظیم قائد عطا فرما کر حکم دیا جارہا ہے کہ ہمیشہ مجھے یاد رکھنا اور میرے شکر گزار رہتے ہوئے میرے احکام کی بجاآوری کرتے رہنا کسی کا خیال اور خوف دل میں ہرگز نہ لانا تاکہ تمہیں ہدایت کے راستے پر استقامت اور مزید رہنمائی سے نوازا جائے۔ ذکر کی اہمیّت : ذکر کی جامع تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کے ساتھ اس کی ذات اور صفات پر کامل یقین رکھتے ہوئے اسے دل اور زبان کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ تمام عبادات ذکر ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ لیکن ان کی ادائیگی کے بعد بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کو کثرت کے ساتھ یاد رکھاکرو‘ جب تم نماز پوری کرلو تو اٹھتے‘ بیٹھتے اور لیٹتے وقت اللہ کو یاد کیا کرو۔ ﴿فَإِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ﴾ [ النساء :103] ” جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں پر اللہ کا ذکر کرو۔“ ذکر کی مختلف صورتیں : (اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَاف بالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامَۃِ ذِکْرِ اللّٰہِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب المناسک‘ باب فی الرمل] ” یقیناً ! بیت اللہ کا طواف‘ صفا ومروہ کی سعی اور شیاطین کو کنکریاں مارنا اللہ کا ذکر بلند کرنے کے لیے مقرر کیے گئے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ {رض}عَنِ النَّبِیِّ {}قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ] ” حضرت ابوہریرہ {رض}بیان کرتے ہیں کہ نبی {ﷺ}نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں‘ وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ فضیلت شکر : یہاں شکر کے مقابلے میں کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنیٰ ہے ناشکری اور ناقدری کرنا۔ گویا اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتوں کی ناقدری کرنے والا بالفعل کفر ہی کا ارتکاب کرتا ہے۔ شرف انسانیت کا تقاضا ہے کہ آدمی ہر حال میں اپنے رب کا شکر گزار بننے کی کوشش کرے۔ شکر رب سے مانگنے کا سلیقہ اور زوال نعمت سے محفوظ رہنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مزید عنایات کا دروازہ کھولتا ہے۔ انسان شکر تبھی ادا کرتا ہے جب اس کے دل میں اپنے رب کی نعمتوں اور احسانات کا شعور اور احساس پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ اور مزیدملنے کے حق دار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ہی ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں واضح طور پر فرمایا ہے : کہ تمہیں عذاب سے محفوظ رکھنے کے ساتھ مزید عنایات سے نوازا جائے گا۔ اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سر کشی اور بغاوت کی حدود پھاندتے ہوئے کہا تھا : ﴿وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ﴾ [ الأعراف :17] ” اے رب تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔“ رسول گرامی {ﷺ}نے معاذ بن جبل {رض}کو یہ دعا سکھلائی کہ اسے ہر نماز کے بعد پڑھا جائے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت پر میری مدد فرما۔“ مسائل : 1۔ ذکر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہر حال میں یاد رکھتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کا ہر دم شکریہ ادا کرتے رہنا چاہئے۔ 3۔ ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن: شکر کی فضیلت : 1۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدر دان ہے۔ (النساء :147) 2۔ شیطان کا مقصد انسان کو ناشکر ا بنانا ہے۔ (الاعراف :17) 3۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا :13) 4۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ‘ کان اور دل اس لیے دیئے ہیں کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (السجدۃ:9) 5۔ شکر ادا کرنے والے کو مزید عطا کیا جاتا ہے۔ (ابراہیم :7)