وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں اور واضح دلیل دے کر بھیجا۔
فہم القرآن : (آیت 96 سے 97) ربط کلام : حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اور دوسری اقوام کا انجام بیان کرنے کے بعد حضرت موسیٰ کی قوم کا کردار اور انجام کا مختصر بیان۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی کئی اعتبار سے نبی اکرم (ﷺ) اور آپ کی قوم کے ساتھ مماثلت پائی جاتی ہے۔ جس کی ابتدا موقعہ کی مناسبت سے یوں فرمائی کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح دلائل اور کھلے معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کے لیڈروں کی طرف بھیجا۔ کیونکہ فرعون کی قوم اس کے ہر کام کی پیروی کرتی تھی۔ جبکہ فرعون کا کوئی کام بھی اچھا نہ تھا ” الرشید“ کا معنیٰ ہے نیک یا اچھا کام۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دو عظیم معجزوں سے نوازا۔ عصا پھینکتے تو اللہ کے حکم سے بہت بڑا اژدھا بن جاتا۔ اپنا دایاں ہاتھ بغل میں دبا کر باہر نکالتے تو وہ اس قدر چمکتا ہوا دکھائی دیتا کہ سورج کی روشنی بھی اس کے سامنے ماند پڑجاتی اور موسیٰ (علیہ السلام) جب بنی اسرائیل کی آزادی اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل دیتے تو فرعون اور اس کے لیڈروں کی زبانیں گنگ ہوجاتیں۔ وہ دلائل کا جواب دلائل سے دینے کی بجائے الزامات لگانے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے مظالم جب حد سے گزر گئے تو موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آل فرعون پر یکے بعد دیگرے پانچ عذاب مسلط کیے۔ زبردست سیلاب، ہر جگہ ٹڈیوں کے دَل کے دَل، جوئیں، مینڈکوں کی بہتات اور ہر چیز کا خون سے بھرجانا۔ فرعون اور اس کے ساتھی ہر عذاب کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) سے ایمان لانے کے وعدہ پر فریاد کرتے لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجہ میں عذاب ٹل جاتا تو پھر پہلے سے زیادہ مظالم ڈھاتے۔ اور فرعون کی تابع داری میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے۔ جس کے بارے میں قرآن مجید واضح انداز میں بتلاتا ہے کہ فرعون اس قدر ظالم اور نافرمان ہوچکا تھا کہ اس کے کسی حکم اور کام میں خیرباقی نہ رہی۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں دے کر بھیجا۔ 2۔ فرعون کا کوئی کام درست نہ تھا۔