سورة ھود - آیت 53

قَالُوا يَا هُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَيِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِكِي آلِهَتِنَا عَن قَوْلِكَ وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انھوں نے کہا اے ہود! تو ہمارے پاس کوئی واضح دلیل لے کر نہیں آیا اور ہم اپنے معبودوں کو تیرے کہنے سے ہرگز چھوڑنے والے نہیں اور نہ کسی طرح تجھ پر ایمان لانے والے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 53 سے 54) ربط کلام : قوم عاد کا ردعمل۔ غور فرمائیں کہ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توبہ واستغفار کی دعوت دی۔ لیکن قوم نے اس کا کس قدر الٹا جواب دیا۔ قوم کہنے لگی کہ اے ھود! تو ہمارے پاس ٹھوس اور واضح دلائل نہیں لایا۔ تیری بے بنیاد باتوں پر ہم اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی تجھ پر ایمان لائیں گے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے معبودوں کی مخالفت کی وجہ سے کچھ معبودوں کی تجھ پر مار پڑگئی ہے۔ جس کی وجہ سے تو الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے فرمایا تم جو کچھ چاہو کہو۔ لیکن میں اس بات پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچ اور حق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور حاجت روا، مشکل کشا نہیں۔ گواہ رہو کہ جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے نفرت اور برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے تمہارے معبودوں نے کچھ کردیا ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اور تمہارے الٰہ اکٹھے ہو کر جو اقدام میرے خلاف کرنا چاہتے ہو کرو۔ میں تم سے ایک لمحہ بھی مہلت مانگنے کے تیار نہیں ہوں۔ یاد رہے کہ یہ بھی مشرکین کی شروع سے عادت ہے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ کو سچ ثابت کرنے کے لیے نہ صرف اپنے معبودوں کے متعلق جھوٹے دعوے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ بلکہ وہ توحید کی دعوت دینے والوں کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے حاجت روا اور مشکل کشاؤں کی توہین جاری رکھی تو وہ تمہارا قلع قمع کردیں گے۔ اگر کسی مواحد کو کوئی ناگہانی مشکل آن پڑے یا کوئی نقصان ہوجائے تو مشرکین یہ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں کا کیا دھرا ہے۔ ایسا ہی دعویٰ حضرت ھود (علیہ السلام) کے مخالفوں نے کیا تھا حالانکہ ہر دور میں یہ مثالیں موجود رہی ہیں کہ مشرکین جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ اپنے اور کسی دوسرے کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ مسائل : 1۔ قوم عاد نے نبی کے سمجھانے کے باوجود معبود ان باطل کو نہ چھوڑا۔ 2۔ حضرت ھود (علیہ السلام) پر ان کی قوم ایمان نہ لائی۔ 3۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم سمجھتی تھی کہ حضرت ھود (علیہ السلام) کو ان کے دیوتاؤں نے مشکل میں مبتلا کیا ہے۔ 4۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا ہمیشہ اللہ کی ذات پربھروسہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : انبیاء (علیہ السلام) کا اپنی اقوام کو چیلنج : 1۔ حضرت ھود نے اپنی قوم سے کہا اللہ کے علاوہ تم سارے کے سارے جو کرسکتے ہو میرے خلاف کرگزرو۔ (ھود :55) 2۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارو نہ وہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ (یونس :106) 3۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے۔ (الانبیاء :66) 4۔ اے نبی ! اعلان کردیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں۔ (الاعراف :188) 5۔ کیا تم ایسوں کو معبود مانتے ہو جو تمہارے نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد :16) 6۔ کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (المائدۃ:76)