وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ
اور اے میری قوم! اپنے رب سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، وہ تم پر بادل بھیجے گا، جو خوب برسنے والا ہوگا اور تمھیں تمھاری قوت کے ساتھ اور قوت زیادہ دے گا اور مجرم بنتے ہوئے منہ نہ موڑو۔
فہم القرآن : ربط کلام : حضرت ھود (علیہ السلام) کا قوم سے خطاب جاری ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہوئے اپنی قوم کو یہ حکم بھی دیا کہ اے میری قوم! اپنے رب سے اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگو اور آئندہ کے لیے کفرو شرک اور ظلم و زیادتی سے باز آجاؤ۔ تمہیں آخرت میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہونے کے ساتھ دنیا میں اللہ تعالیٰ تم پر رحمت کی بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں اور زیادہ اضافہ کرے گا۔ ان باتوں کا انکار کرکے مجرم نہ بنو۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کے خطاب سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے کا فائدہ صرف آخرت میں ہی نہیں ہوگا بلکہ انبیاء کی دعوت قبول کرنے سے دنیا کی خوشحالی اور ترقی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ترقی کے لیے جو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں وہ اسباب کی فراوانی اور جسمانی صحت کا بہترین ہوناہیں۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے ماضی کے گناہوں پر استغفار اور کفرو شرک اور ظلم سے بچنے پر اپنی قوم کو دونوں قسم کی ضمانتیں دی تھیں۔ اس سورت کی پہلی اور دوسری آیت میں نبی اکرم (ﷺ) نے اپنے ماننے والوں کو یہی ضمانت دی ہے کہ لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو میں اس کی طرف سے تمہارے لیے نذیر اور بشیر بنایا گیا ہوں۔ اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار کرو۔ وہ تمہیں دنیا میں بہترین اسباب اور اپنے فضل وکرم سے نوازے گا۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ نفاذ دین سے تنگی اور مشکلات پیدا ہونے کی بجائے ہر قسم کی فراوانی اور خوشحالی پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے : ﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنَاہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ﴾[ الاعراف :96] ” اگر لوگ سچا ایمان لائیں۔ کفرو شرک اور جرائم سے بچیں۔ تو ہم زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیں گے۔“ ایک حد نافذ کرنے کی برکات : (عَنِ ابِنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (ﷺ) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِنْ حُدُود اللَّہِ خَیْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فِی بلاَدِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ )[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الحد ود، باب اقامۃ الحدود] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کو قائم کرنا۔ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنی چاہیے۔ 2۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ رہنا چاہیے۔ 3۔ استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ بارشیں نازل فرماتا ہے۔ 4۔ استغفار کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ لوگوں کی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : توبہ و استغفار کی اہمیت اور فوائد : 1۔ اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو، اسی کی طرف متوجہ رہو۔ وہ تم پر بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ھود :52) 2۔ اللہ تعالیٰ استغفار کرنے والوں کو عذاب نہیں دیتا۔ (الانفال :33) 3۔ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور اسی کی طرف متوجہ رہو۔ اللہ تمہیں اس کا بہترین صلہ عطا فرمائے گا۔ (ھود :3) 4۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو۔ بے شک اللہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (المزمل :20) 5۔ اللہ سے معافی طلب کرو اور اسی کی طرف متوجہ رہو۔ بے شک میرا رب نرمی کرنے اور شفقت کرنے والاہے۔ (ھود :90) 6۔ اللہ سے مغفرت طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا ہے۔ (نوح :10) 7۔ اگر تم توبہ کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ (التوبۃ:30)