وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، بے شک میں تمھارے لیے صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔
فہم القرآن : (آیت 25 سے 26) ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز۔ قرآن پاک کے حوالے سے یہ بات پہلے بھی لکھی جاچکی ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے جتنے پیغمبر مبعوث کیے گئے ان سب نے اپنی دعوت کا آغاز اللہ کی توحید سمجھانے سے کیا۔ جس کا تقاضا ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جن کو اوّلُ الرُّسُل بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کو یہی فرمایا کہ اے میری قوم! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ میں تمہیں اس طریقہ عبادت کے انجام سے واشگاف الفاظ میں آگاہ کررہا ہوں جس طریقہ سے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ اگر تم اس طریقہ عبادت سے باز نہ آئے تو تم پر اذیت ناک عذاب نازل کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے فوت شدہ انبیاء اور بزرگوں کے مجسمے بنائے ہوئے تھے۔ جنہیں سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس طرح اللہ کی عبادت کرنے کا زیادہ لطف آتا ہے اور ان کی ارواح ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتی ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے سمجھانے پر وہ لوگ سمجھنے کی بجائے یہ کہنے لگے کہ اے نوح ہم اپنے معبودوں کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ وہ لوگ ایک دوسرے کو پکا کرتے ہوئے کہتے کہ ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو ہرگز نہیں چھوڑنا۔ یہ اس قوم کے پانچ فوت شدہ بزرگ تھے۔ عبادت کا مفہوم : اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے۔ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو زبان سے اقرار کرے اور اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے رہا ہو۔ اے اللہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے۔ دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ یہ میرا مال ہے ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد میں دہراتا ہے : (اَلتَّحَیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ) ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔“ نبی اکرم (ﷺ) کو حکم : ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔﴾[ الانعام : 162۔163] ” کہہ دیجیے ! یقیناً میری نماز، قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔“ مسائل : 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف ڈرانے والا بناکر بھیجا گیا۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلایا۔ 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ تفسیر بالقرآن : تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز اللہ کی توحید سے کیا کرتے تھے : 1۔ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود :26) 2۔ حضرت ہود نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی اِلٰہ نہیں۔ (الاعراف :65) 3۔ حضرت صالح نے کہا اللہ کے سوا تمہارا کوئی اِلٰہ نہیں اسی کی عبادت کرو۔ (الاعراف :73) 4۔ حضرت شعیب نے اپنی قوم سے کہا اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ (ہود :84) 5۔ ہم نے ہر قوم کی طرف رسول بھیجے اور انہوں نے دعوت دی کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے بچو۔ (النحل :36) 6۔ بیشک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے، اسی کی عبادت کرو۔ (الزخرف :64)