وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔ اور یقیناً اگر تو کہے کہ بے شک تم موت کے بعد اٹھائے جانے والے ہو تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، ضرور ہی کہیں گے یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : کھا نے پینے کے انتظام کے ساتھ ہر ذی روح کی رہائش کا بندوبست۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلیفہ بنا کر زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور انسان کی زندگی کے لیے تمام اسباب مہیا فرمائے زمین و آسمان کی تخلیق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے زمین و آسمان کو بغیر کسی نقشے اور میٹیریل کے پیدا فرمایا ہے۔ جس کے لیے بدیع کا لفظ استعمال کیا ہے۔ سورۃ الانعام آیت :101” بدیع“ کا معنی ہے کہ جس چیز کا اس سے پہلے کسی اعتبار سے وجود نہ ہو۔ پھر زمین و آسمان کو بننے کا حکم دیا جن کی حالت ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ زمین و آسمان دونوں آپس میں جڑے ہوئے تھے ہم نے انہیں الگ الگ کیا۔ جسے سائنسدان بگ ہینگ کا نام دیتے ہیں۔ سورۃ الانبیاء آیت 30میں بیان کیا ہے کہ پھر زمین کو دو دن میں بنایا اور دو یوم میں اس پر پہاڑ نصب کیے اور باقی تمام چیزیں زمین میں رکھ دیں۔ اس کے بعد دو یوم میں سات آسمان اور آسمان دنیا کو مزین فرمایا۔ جبکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ پانی زمین و آسمان سے بھی پہلے پیدا کیا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ ہم نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ (الانبیاء :30) پھر اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں سے اوپر متمکن ہوا جس طرح اس کے شایان شان ہے۔ (البقرۃ :29) ہمیں یہ سوچنے کی اجازت نہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر کس حالت میں ہے؟ زمین پر انسان کو خلافت اور مہلت اس لیے دی تاکہ وہ آزمائے کہ انسان تھوڑی سی مہلت اور معمولی سے اختیارات حاصل ہونے کے بعد کیا کردارا دا کرتا ہے یہی انسان کی موت وحیات کا مقصد ہے کہ وہ بہتر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ (الملک :2) سورۃ التین میں انسان کی تخلیق کا ذکر کرنے سے پہلے چار قسمیں کھائیں اور فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ جب اسے نیک اعمال کرنے کا احساس دلا کر یہ کہا جائے کہ موت کے بعد ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کا محاسبہ کرے گا اس کے جواب میں خدا کے باغی اور قیامت کے منکر کہتے ہیں کہ یہ تو الفاظ کی جادوگری ہے۔ جو شخص مرنے کے بعد اٹھنے کا دعویٰ کرتا ہے درحقیقت یہ عقیدہ سحر کے سوا کچھ بھی نہیں گویا کہ قیامت کے منکرین کے نزدیک جس طرح جادوگر اپنے جادو کا مظاہرہ کرکے محض وقتی طور پر ایک تماشا کرتا ہے ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے انسان اور دنیا کو محض تماشا کے طور پر پیدا کیا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے۔ کھیل تماشا کے طور پر پیدا نہیں کیا اگر ہمارے نزدیک اس کی حیثیت ایک کھیل تماشا کی ہوتی تو ہم اس کا مظاہرہ اپنے پاس کرتے۔ (الانبیاء : 15، 16) اس لیے یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم تمہیں موت کے بعدضرور اٹھائیں گے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ منکرین قیامت سے کہہ دیجیے کہ بے شک تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا اس سے بڑھ کر کچھ اور ہوجاؤ۔ جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا وہ تمہیں دوسری دفعہ بھی پیدا کرے گا۔ ( بنی اسرائیل : 50، 51) مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں تخلیق فرمایا۔ 2۔ زمین و آسمان کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پرتھا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو آزماتا ہے۔ 4۔ کفار مرنے کے بعد جی اٹھنے کے قائل نہیں۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ہر جاندار کو پیدا کرے گا : 1۔ بے شک تمہیں مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا۔ (ہود :7) 2۔ بے شک جس نے پیدا کیا وہی مردوں کو زندہ کرے گا۔ (حٰم السجدہ :39) 3۔ اللہ تمہارا ولی ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الشورٰی :9) 4۔ اللہ ہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الروم :50) 5۔ ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے۔ (یٰس :12)