أَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ ۚ أَلَا حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
سن لو! بلاشبہ وہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں، تاکہ اس سے چھپے رہیں، سن لو! جب وہ اپنے کپڑے اچھی طرح لپیٹ لیتے ہیں وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ بے شک وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے حضور توبہ و استغفار کرنے کی بجائے منکرین کا رویہ۔ منکرین حق نہ صرف انبیاء کی دعوت کا انکار کرتے بلکہ ہر اعتبار سے انبیاء کو اذیت پہنچانے اور انہیں زچ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا انبیاء ( علیہ السلام) کو اذیت دینے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جب وقت کا پیغمبر انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے، شرک سے بچنے اور گناہوں کی معافی مانگنے کے لیے کہتا تو وہ لوگ وقت کے پیغمبر کا مذاق اڑانے کے ساتھ یہ بھی کرتے کہ جوں ہی پیغمبر کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھتے یا کہیں ملاقات ہوجاتی تو اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کرتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کفار اور مشرکین کا رویہ اس حد تک ناروا تھا کہ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو دیکھتے ہی اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے اور چہروں کو چھپائے ہوئے انتہائی نفرت اور نکیر کا اظہار کیا کرتے تھے۔ (نوح :7) ایسا ہی رویہ کفار مکہ میں سے کچھ لوگ رسول محترم (ﷺ) کے ساتھ اختیار کرتے تھے۔ مکہ میں آنے والے ہر شخص کو یہ باور کرواتے کہ ہم میں ایک شخص نبوت کا دعوی کرتا ہے جو حقیقتاً جادوگر ہے اگر تم اس سے بچنا چاہتے ہو تو اس کے قریب نہ جانا۔ (کبھی یوں بھی کرتے کہ) آپ کی مجلس میں بیٹھتے تو اپنے سینوں کو اپنی رانوں میں سکیڑ لیتے تاکہ آپ کی بات سے بے پرواہی کا اظہار کیا جائے۔ اس پر انہیں انتباہ کیا جارہا ہے کہ تم ایک داعی سے چھپ سکتے ہو لیکن اللہ سے نہیں چھپ سکتے کیونکہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں سے چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔ اللہ تمہارے دلوں کے راز بھی جانتا ہے۔ طفیل دوسی جو قبیلہ دوس کا سردار تھا وہ عمرہ کی غرض سے مکہ آیا مکہ کے لوگوں نے حسب عادت رسول کریم (ﷺ) کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کیا جس کے رد عمل میں طفیل دوسی نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ کہیں اس شخص کی آواز اچانک مجھے متاثر نہ کردے۔ لیکن اللہ کی شان دیکھیے جوں ہی اس نے طواف شروع کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ رسول محترم (ﷺ) مطاف میں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر نوافل میں قرآن مجید تلاوت کررہے ہیں۔ طفیل طواف کے ہر چکر میں آپ کو غور سے دیکھتا ہے۔ اس کا طواف مکمل ہوا تو وہ آپ کے چہر پر انوار اور قیام و سجود سے اس قدر متاثر ہوا۔ کہ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہنے لگا کہ طفیل کیسی حماقت ہے؟ تو اپنی قوم کا مانا ہوا شاعر، اپنے قبیلے کا سردار، اور لوگوں کے تنازعات میں فیصلے کرنے والا ہے۔ تجھے اس شخص کی بات سن کر اندازہ تو کرنا چاہیے کہ اس کا کلام کیسا ہے؟ اس کے ساتھ ہی اس نے کانوں سے روئی نکالی اور ایک طرف کھڑا ہو کر رسول محترم کی تلاوت سنتا رہا جب آپ نوافل سے فارغ ہو کر گھر جانے لگے تو آپ کے پیچھے ہو لیا آپ اپنے دروازے کے قریب پہنچے تو عرض کرتا ہے۔ کہ اے محمد! مجھے وہ سناؤ جو آپ نماز میں پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کی مہمان نوازی کرتے ہوئے قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت کی طفیل اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ مسائل : 1۔ منافق اللہ تعالیٰ سے اپنی باتوں کو چھپاتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سینے کے رازوں سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ظاہر اور باطن کو جانتا ہے : 1۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور تم چھپاتے ہو وہ دل کے رازوں سے واقف ہے۔ (ہود :5) 2۔ اللہ جانتا ہے جو تم خفیہ کرتے ہو اور جو تم سرعام کرتے ہو۔ (النحل :19) 3۔ اللہ غائب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ (الحشر :22) 4۔ اللہ کے لیے ظاہر اور پوشیدہ برابر ہے۔ (الرعد :10) 5۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپا کر کرتے ہو اور جو تم سر عام کرتے ہو۔ (البقرۃ :77) 6۔ اللہ آسمان کی ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ (الانعام :3) 7۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کی سرگوشیوں سے بھی واقف ہے۔ (التوبۃ:78) 8۔ تم بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات کو بھی جانتا ہے۔ (الملک :13) 9۔ کہہ دیجیے اس (قرآن مجید) کو اس ذات نے نازل فرمایا ہے جو آسمان و زمین کے اسرار ورموز کو جانتا ہے۔ (الفرقان :6)