قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ
کہہ دے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ وہی ہمارا رب اور تمھارا رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال اور ہم اسی کے لیے خالص کرنے والے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انحراف اور اس کے احکام کا انکار کرنے والا عملًا اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرتا ہے۔ اے نبی {ﷺ}! اب ان سے پوچھیے کیا تم ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہو جس کی توحید اور اطاعت کا رنگ ہم نے اختیار کرلیا ہے جو ہمارا مالک‘ ہمیں پالنے والا اور تمہارا مالک اور تمہیں بھی روزی مہیا کرنے والا ہے۔ جب ہم ایک ہی مالک کی مخلوق اور ایک ہی رازق کے در کے سوالی اور محتاج ہیں تو پھر اس ذات کبریا کے بارے میں ہمارے ساتھ کیوں جھگڑتے ہو؟ ایک مالک‘ خالق اور ایک ہی رازق ماننے والوں کو ایک ہی امت ہونا چاہیے اگر تم دنیا وآخرت کی سب سے بڑی سچائی توحید کو ماننے کے لیے آمادہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کی غلامی میں آنے کے لیے تیار نہیں تو پھر ہم نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور تم اپنے کردار کے بارے میں جواب دہ ہو گے۔ ہاں ہم تمہاری طرح اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کی شراکت اور عقیدۂ توحید میں کوئی ملاوٹ گوارا نہیں کرتے۔ ہمارا عمل اور عقیدہ اسی ذات کے لیے خالص اور بلا شرکت غیرے ہے جو سب کا رب ہے۔ یہی وہ جھگڑا ہے جس بنا پر ہر زمانے میں کافر اور مشرک اللہ کے مخلص بندوں سے ٹکراتے آ رہے ہیں۔ اس فرمان میں ایک مخصوص انداز میں مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ ان سے الجھنے کی بجائے ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ ہر شخص اپنے ہی اعمال کا جواب دہ ہے۔ مسائل : 1۔ سب کا رب ایک اللہ ہے۔ 2۔ ہر کوئی اپنے اعمال کا جواب دہ ہے۔ 3۔ سچا مسلمان وہ ہے جو اپنے رب کے لیے مخلص ہوجائے۔ تفسیر بالقرآن : اخلاص کی اہمیت : 1۔ نبی {ﷺ}کو اخلاص کا حکم۔ (الزمر :11) 2۔ تمام امتوں کو اخلاص کا حکم۔ (الاعراف : 29) 3۔ اخلاص والے مومن ہیں۔ (النساء :146) 4۔ مخلص بندوں پر شیطان قابو نہ پاسکے گا۔ (ص :83)