وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کردیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب اسے ڈوبنے نے پا لیا تو اس نے کہا میں ایمان لے آیا کہ بے شک حق یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرماں برداروں سے ہوں۔
فہم القرآن : (آیت 90 سے 92) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بدعا کا نتیجہ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا اور ان کی قوم کی آہ و زاریوں کو قبول فرمایا اور بنی اسرائیل کو نجات دی۔ فرعون اور اس کے لشکروں کو ڈبکیاں دے دے کر مارا جس کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ اے اہل مکہ ہم نے تم سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا اور ان کے پاس معزز رسول یہ پیغام لے کر آیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ دار اور امانت دار رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ لہٰذا اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کردے یعنی انہیں آزاد کردیا جائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سرکشی نہ کرو میں تمہیں واضح طور پر دلائل دے رہا ہوں۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دہمکی دی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بچانے کی ضمانت دی ہے اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میرا راستہ چھوڑ دو ایک مدت کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے بددعا کی جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ۔ ہاں یہ بات یاد رکھنا کہ فرعون اور اس کا لشکر تمہارا پیچھا کریں گے۔ سمندر کے پانی کو کھڑا چھوڑ کر پار ہوجانا کیونکہ ہم انہیں غرق کردیں گے۔ (الدخان : 17۔24) چنانچہ اس طرح فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا گیا۔ جب فرعون ڈبکیاں لینے لگا تو اس نے موت و حیات کی کشمکش کے دوران دہائی دیتے ہوئے کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لاتے ہوئے مسلمان ہوتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں یہاں تک کہ اس نے اس کا بھی اقرار کیا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ کیا اب ایمان لاتا ہے؟ اس سے پہلے تو بار بار انکار کرچکا اور انتہا درجے کا فسادی تھا۔ بس آج تیرے وجود کو لوگوں کی عبرت کے لیے باقی رکھا جائے گا تاکہ آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن جائے۔ بے شک لوگوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے احکام سے غافل ہوتی ہے۔ بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب فرعون نے آخری وقت کلمہ پڑھ لیا تھا تو اس کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوئی؟ یہ سوال کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ فرعون کی توبہ تین و جہ سے قبول نہیں کی گی۔ 1۔ سورۃ الاعراف کی آیت : 133۔ 135میں گزر چکا ہے کہ یکے بعددیگرے کئی عذابوں میں مبتلا ہونے اور بار بار عہد کرنے کے باوجود یہ لوگ عہد شکنی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا حال معلوم تھا کہ فرعون اور اس کے ساتھی اب بھی عہد شکنی کریں گے اس لیے ان کی توبہ قبول نہ کی گئی۔ 2۔ طویل مدت تک موسیٰ (علیہ السلام) کے سمجھانے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار مہلت دینے کے باوجود یہ لوگ ایمان نہ لائے جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے ایمان نہ لانے کی بددعا کی تھی گویا کہ اس بدعا کی وجہ سے اس کا ایمان قبول نہ ہوا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ انسان کی توبہ نزع کے عالم سے پہلے قبول ہوتی ہے جب موت کی واردات کا آغاز ہوتا ہے تو آدمی کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اس بنا پر بھی فرعون کی توبہ مسترد کردی گئی۔ جہاں تک اس کی لاش محفوظ رکھنے کی حکمت ہے وہ قرآن مجید نے خود ہی بیان کردی ہے تاکہ اس کی لاش کو دیکھنے والے عبرت حاصل کریں۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کو خوف کے مارے یہ یقین نہیں ہورہا تھا ان کے خوف کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پانی کی لہروں کو حکم دیا کہ اس کی لاش کو پانی سے باہر اونچی جگہ پھینک دے جسے دیکھ کر بنی اسرائیل کو یقین ہوا کہ ان کا دشمن مرچکا ہے فرعون کی لاش کے بارے میں ﴿فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ﴾ کہ آج ہم تیرے وجود کو باقی رکھیں گے کے بارے میں کچھ لوگوں نے لکھا کہ یہ قیامت تک محفوظ رہے گی جبکہ دوسرے اہل علم کا خیال ہے کہ یہ صرف اسی زمانے کے لوگوں کے لیے اعلان تھا۔ واللہ اعلم۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات باب قبول توبۃ العبد مالم یغرغر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سانس کے اٹکنے سے پہلے پہلے قبول کرتا ہے۔“ مسائل : 1۔ ظلم کرنے والے تباہ ہوجاتے ہیں۔ 2۔ نزع کے وقت ایمان قبول نہیں ہوتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے باغیوں کو نشان عبرت بنا دیتا ہے۔ 4۔ اکثر لوگ اللہ کی نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : 1۔ آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنائیں۔ (یونس :92) 2۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الاعراف :64) 3۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں دریا برد کردیا۔ (الزخرف :55) 4۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل:103) 5۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء :66) 6۔ قیامت کے دن (فرعون) اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور وہ انہیں دوزخ میں لے جائے گا۔ (ہود :98) 7۔ ہم نے انہیں اور ان کے لشکروں کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ (الذاریات :40)