وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ
اور فرعون نے کہا میرے پاس ہر ماہر فن جادوگر لے کر آؤ۔
فہم القرآن : (آیت 79 سے 82) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت فقط اتنی تھی کہ بنی اسرائیل پر مظالم ڈھانے کی بجائے انہیں آزاد کر دو اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت کرنے کی بجائے اس پر سچا ایمان لاکراس کی غلامی اختیار کرو۔ مگر فرعون نے طاقت کے بل بوتے اور پروپیگنڈہ کے زور پر بات کا رخ موڑ دیا اور اپنے وزیروں اور مشیروں کو حکم صادر کیا۔ کہ پورے ملک سے ماہر جادوگروں کو میرے پاس حاضر کیا جائے۔ جس کی تفصیل سورۃ طٰہ میں یوں ہے کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ہم بھی تیرے جادو جیسے جادوکا مظاہرہ کریں گے۔ بس ہمارے اور تمہارے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ نہ ہم اس کی مخالفت کریں گے اور نہ تجھے اس کی خلاف ورزی کرنی چاہیے اب لوگوں کے عظیم اجتماع میں صبح کے وقت عید کے دن معرکہ ہوگا (طٰہ : 58۔60) یہ معاہدہ ہوجانے کے بعد فرعون نے پورے ملک سے اپنے اہلکاروں کے ذریعے جادوگروں کو اکٹھا کیا۔ جب جادوگر میدان میں اترے تو انہوں نے فرعون سے مطالبہ کر ڈالا اگر ہم موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) پر غالب آگئے تو ہمیں کیا ملے گا۔ فرعون نے کہا تم میرے مقربین میں ہو گے گویا کہ انہیں وزیر اور مشیر بنانے کا وعدہ کیا پھر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اپنا عصا پھینکتے ہیں یا جو کچھ ہم لائے ہیں وہ میدان میں پھینکیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں تمہیں پہلے موقع دیتا ہوں ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ نہایت ہی افسوس ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور مجھے عطا کیے گئے معجزات کو جادو قراردیتے ہو۔ یاد رکھو اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں عنقریب اللہ کا عذاب آلے گا۔ جھوٹا آدمی بالآخر ناکام اور نامراد ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ مفسدین کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بات اتنے مؤثر اور بارعب انداز میں فرمائی کہ جادوگر سوچنے پر مجبور ہوگئے۔ قریب تھا کہ ان میں موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کرنے پر اختلاف ہوجاتا۔ مگر انہوں نے اس پر کنٹرول کرلیا بالآخر اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہ دونوں بھائی جادو کے ذریعے ہمارے دین کو بدلنا اور ہم کو ملک سے نکالنا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے صف بندی کرتے ہوئے۔ (طہٰ: 58۔64) بڑے بڑے رسے اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں اور زبردست جادومنتر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلک شگاف نعرے لگائے کہ فرعون زندہ باد یقیناً ہم غالب آچکے ہیں۔ ( الشعراء : 83۔84) انہوں نے صف بندی کرتے ہوئے بھرپور طور پر جادو کا مظاہرہ کیا۔ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں بڑے بڑے اژدہا بن کر میدان میں بل کھانے لگیں۔ یہ ایسا خوفناک منظر تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے دل میں ڈرگئے۔ جس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے موسیٰ سے فرمایا ہرگز نہ ڈریں آپ ہی سر بلند اور کامیاب ہوں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے عصا پھینکا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ نگل لیا جو کچھ جادو گروں نے کیا تھا اس کا صفایا کردیا۔ جادوگر کہیں بھی کامیاب نہیں ہوا کرتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی کامیابی دیکھتے ہوئے جادوگر سجدہ ریز ہو کر پکار اٹھے کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ فرعون نے اس پر دھمکی دیتے ہوئے کہا دراصل یہ تمہارا استاد جادوگر ہے۔ میری اجازت کے بغیر تم نے اس پر ایمان لانے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رکھو میں تمہارے مخالف سمت میں ہاتھ پاؤں کاٹ کر تمہیں کھجور کے درختوں پر لٹکاؤں گا۔ تاکہ تمہیں اور دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ ہم کیسی عبرت ناک اور دائمی سزا دیتے ہیں۔ جو جادو گر ایمان لائے انہوں نے کہا ہم کیوں نہ ایمان لاتے جبکہ ہمارے پاس ٹھوس دلائل اور واضح معجزات آچکے ہیں اب تم جو چاہو کرلو ہم ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔ ہاں یاد رکھنا تمہاری سزائیں اور اذیتیں صرف دنیا کی زندگانی تک ہیں۔ ایمانداروں کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ تمہاری سزائیں صرف ہمارے آخری سانس تک ہیں مرنے کے بعد ہمیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ کیونکہ ہم اپنے رب پر ایمان لے آئے ہیں وہی ہماری خطاؤں کو معاف کرنے والا ہے۔ (طٰہٰ : 64۔73) جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) نے مقابلہ سے پہلے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے فرمان کو سچ کر دکھایا۔ جادوگروں کا جادو جھوٹ اور فریب ثابت ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ حق کو غالب کرتا ہے۔ خواہ یہ بات کفار کے لیے کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو، کفار تو حق کے غلبہ کو ہمیشہ سے ناگوار ہی سمجھتے ہیں۔ مسائل : 1۔ دنیا دار مادی و سائل کی بنیاد پر حق والوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ 2۔ حق والے کسی کے وسائل سے مرعوب نہیں ہوتے۔ 3۔ حق والے ہمیشہ اللہ پر نظر رکھتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بالآخر باطل کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ فسادیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ 6۔ اللہ تعالیٰ حق کو غلبہ عطا فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : فساد کرنے والے لوگ حقیقی کامیابی نہیں پاتے : 1۔ بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو کامیابی نہیں دیتا۔ (یونس :81) 2۔ فساد کرنے والے خسارہ اٹھائیں گے۔ (البقرۃ:27) 3۔ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ:64) 4۔ اللہ فساد کرنے والوں کے عمل کو درست نہیں کرتا۔ (یونس :81) 5۔ دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الاعراف :86) 6۔ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کے لیے لعنت اور برا گھر ہے۔ (الرعد :25) 7۔ زمین میں فساد نہ کرو اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (القصص :77) 8۔ وہ زمین میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں، کھیتی اور جانوروں کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں، اللہ فسا دکرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (البقرۃ:205) 9۔ زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ (البقرۃ:60) 10۔ دیکھیں فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النمل :14)