قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ
کہہ دے بے شک جو لوگ اللہ پرجھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 69 سے 70) ربط کلام : زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز پر اللہ کا اختیار اور اقتدار ہے۔ سب کچھ اس کی ملکیت میں ہونے کے باوجود مشرک نہ صرف اللہ تعالیٰ کی خدائی میں دوسروں کو شریک کرتا ہے بلکہ کچھ شخصیات کو اللہ کی اولاد قرار دیتا ہے۔ جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ مشرک اپنے بلاثبوت اور من گھڑت عقیدہ میں اس قدر اندھا ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ شخصیات کی محبت اور اپنے مفادات کی خاطر کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینے سے بھی نہیں چوکتا۔ عرب کے کچھ لوگ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ جس کے لیے وہ یہ بات کہتے تھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نور ہے اسی طرح ہی ملائکہ بھی نوری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو کھانے پینے اور شادی بیاہ کی ضرورت نہیں اسی طرح ملائکہ بھی ان باتوں سے بے نیاز ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کے سو سال بعد زندہ ہونے کی بنا پر انہیں خدا کا بیٹا اور جز قرار دیا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کے بے مثال معجزات اور حضرت مریم کی پاک دامنی سے متاثر ہو کر اس قدر عقیدت میں آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے یہ عقیدہ بنایا اور پھیلایا ہے کہ رب کی خدائی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اسی بنیاد پر تثلیث ان کے مذہب کی نشانی ٹھہری۔ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ اور باطل نظریات کی تردید کرتے ہوئے ناقابل تردید تین دلائل دیتے ہوئے اسے بے بنیاد، جھوٹ اور جہالت قرار دے کر فرمایا ہے۔ کہ ان لوگوں کو دو ٹوک بتلا دیا جائے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹے لوگ کبھی فلاح نہیں پائیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی حقیقی اور ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ اس جھوٹ اور باطل عقیدہ کے پیچھے ان کے دنیا کے مفادات ہیں جس نے بالآخر ختم ہونا ہے ان مفتروں اور مجرموں کی ہر صورت ہمارے پاس حاضری ہوگی۔ جھوٹے عقیدے اور حقائق کا انکار کرنے کی وجہ سے انہیں شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ شرک کرنا اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کے مترادف ہے : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِیْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لَنْ یُّعِیْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَیْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَایَۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہٗ اِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا)[ رواہ البخاری : باب قولہ ﴿ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ یہ اس کا مجھے جھٹلانا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا جیساکہ اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ حالانکہ میرے لیے دوسری بار پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری برابری کرنے والا نہیں۔ بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔“ تین دلائل : 1۔ اللہ تعالیٰ ان کے خود ساختہ عقیدہ اور من گھڑت شریکوں سے پاک ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے : ” کہو وہ پاک ذات جس کا نام اللہ ہے ایک ہے، وہ بے نیاز ہے، نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں“ [ الاخلاص] سبحان کا لفظ تعجب اور پاکیزگی کے لیے آتا ہے یہاں لفظ سبحان بیک وقت دونوں معنوں کا احاطہ کررہا ہے۔ 1: اولاد کے لیے نفسانی خواہش اور بیوی کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ اس سے مبرا ہے۔ 2: اولاد باپ کی معاون اور بڑھاپے میں اس کے کام آتی ہے اللہ تعالیٰ ہر قسم کی محتاجی سے پاک ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ غنی کا معنی صرف دولت مند نہیں بلکہ غنی کا جامع معنی ہے ذاتی اور صفاتی اعتبار سے ہر چیز سے بے نیاز، ہے۔ باقی سب اس کے محتاج اور اس کے درکے فقیر ہیں۔ بے شک انبیاء ہوں یا اولیاء، فوت شدہ ہوں یا زندہ سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اس کا ارشاد ہے اے لوگو! تم تمام کے تمام اس کے در کے فقیر ہو۔ اللہ غنی اور ہر حوالے سے تعریف کے لائق ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو ختم کرکے نئی مخلوق لے آئے تم اس کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ وہ ہر اعتبار سے غالب ہے۔ (فاطر : 15۔17) پھر ارشاد فرمایا کہ جن کو تم پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی نہیں پیدا کرسکتے مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ طالب اور مطلوب سب کے سب کمزور ہیں۔ در حقیقت ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر ہی نہیں جانی۔ (الحج آیت 73۔74) 3۔ بیٹا باپ کا وارث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کا مالک ہے جب سب کچھ اسی کا ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا تو وارث کی کیا ضرروت ہے۔ اس کا ارشاد ہے۔ ﴿وَلِلّٰہ مِیْرَاث السَّمَوَاتِ وَالَارْضِ﴾[ الحدید :10] ” اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا وارث ہے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ پر افترا کرنے والے فلاح نہیں پائیں گے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کو دنیا میں مہلت دے رکھی ہے۔ 3۔ افتراء بازی کرنے والوں کے لیے شدید ترین عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن : دنیا کی زندگی عارضی ہے : 1۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے پھر تمہاری واپسی ہوگی۔ (یونس :70) 2۔ کیا تم آخرت کے بدلے دنیا پر خوش ہوگئے ہو جب کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا بالکل قلیل ہے۔ (التوبۃ :38) 3۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں مگر نہایت تھوڑا فائدہ۔ (الرعد :26) 4۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا ہے۔ (العنکبوت :64) 5۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (الحدید :20) 6۔ تم آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ (الاعلیٰ :16) 7۔ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ:17)