وَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ۚ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور تجھے ان کی بات غمگین نہ کرے، بے شک عزت سب اللہ کے لیے ہے، وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اولیاء اللہ کو آخرت کے خوف و خطر، غم اور پریشانی سے محفوظ رہنے کی خوشخبری دینے کے بعد بالخصوص رسول کریم (ﷺ) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو دشمنوں اور ان کی ہرزہ سرائی سے غم زدہ اور دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ آپ سب سے زیادہ اللہ کے قریب اور اس کے محبوب ہیں۔ رسول کریم (ﷺ) لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے دن رات جدوجہد کررہے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ آپ کا اخلاص اور کردار دیکھ کر منکرین حق اسلام کی سچائی اور نبی کی نبوت پر ایمان لاتے۔ لیکن انہوں نے صحیح اور فطری راستے کو چھوڑ کرنہ صرف کفرو شرک اور نبی کی بغاوت کا راستہ اختیار کیا بلکہ انہوں نے آپ کو پریشان اور ناکام کرنے کے لیے گھٹیا سے گھٹیا ترین سلوک کرنا اپنے لیے باعث فخر سمجھا۔ آپ کی مقدس ذات پر بد ترین الزامات لگائے۔ دانشوروں کے رہبر اور پیشوا ہونے کے باوجود آپ کو پاگل کہا گیا، کائنات کے سب سے بڑے خیر خواہ کو مجنون اور لوگوں کا دشمن قرار دیا۔ آپ (ﷺ) کے گھر والوں کو ہراساں کیا گیا اور آپ کے ساتھیوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ جن پر آپ کا پریشان ہونا طبعی اور فطری بات تھی مگر اس کے باوجود آپ کو حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے رحمت عالم آپ کو غمگین اور آزردہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ عزت و اقبال کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی کے اختیار میں عزت و سر بلندی اور کائنات کے اسباب و وسائل ہیں وہ ہر بات سننے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں نبی اکرم (ﷺ) کو حوصلہ دینے کے ساتھ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دشمنوں کو ناکام کرے گا۔ آپ کو دنیا اور آخرت میں ایسی عزت و شرف سے سرفراز فرمائے گا۔ جس کا کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ دنیا جانتی ہے کہ جو احترام و مقام اور عزت و سرفرازی آپ (ﷺ) کو نصیب ہوئی وہ قیامت تک کسی کے مقدر کا حصہ نہیں بن سکتی اور قیامت کے دن آپ کو وہ مرتبہ اور شان دی جائے گی۔ جو آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے کسی کے حصہ میں نہیں آئے گی۔ سورۃ المنافقون میں فرمایا کہ عزت ” اللہ“ اور رسول اور مومنوں کے لیے لیکن منافق نہیں سمجھتے۔ حیات مبارکہ میں سب سے بڑی پریشانی : غز وہ احد کے موقعہ پر آپ (ﷺ) کے دانت مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر گہرا زخم آیا۔ آپ (ﷺ) بے ہوش کر گر پڑے۔ حضرت عائشہ (رض) نے نہایت غم کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی کہ کیا اس سے بڑھ کر آپ کو کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا مجھے سب سے زیادہ تکلیف طائف میں پہنچی تھی۔ اس موقعہ پر آپ (ﷺ) نے یہ دعا کی : (اَللَّہُمَّ إلَیْکَ أشْکُوْ ضَعْفِ قُوَّتِیْ، وَقِلَّۃِ حِیْلَتِیْ، وَہَوَإنِیْ عَلَیْ النَّاسِ، یَا أرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، أنْتَ رَبِّ المُسْتَضْعَفِیْنَ، وَأنْتَ رَبِّیْ، إلیٰ مَنْ تَکِلُنِیْ ؟ إلیٰ بَعِیْد یَتَجَہَّمُنِیْ ؟ أمْ إلیٰ عَدُوِّ مَلَکْتَہٗ أمْرِیْ ؟ إنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ عَلیَّ غَضَب فَلَا أُبَالِیْ، وَلٰکِنْ عَافِیَتُکَ ہِیَ أوْسَعُ لِیْ، أعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الَّذِیْ أشْرَقْتَ لَہٗ الظُّلُمَاتِ، وَصَلِّحْ عَلَیْہِ أَمْرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃُ مَنْ أنْ تُنَزِّلَ بِیْ غَضْبُکَ، أوْ یَحِلُّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ العُتْبَی حَتّٰی تَرْضٰی، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا بکَ) [ الرحیق المختوم] ” اے اللہ میں شکایت کرتا ہوں اپنی کمزوری کا اور وسائل کی کمی کا اور لوگوں کے مقابلے میں کمزور ہونے کا، اے رحم کرنے والے، آپ کمزوروں کے رب ہیں اور آپ میرے رب ہیں تو مجھے کس کے سپرد کرتا ہے دوری کی طرف جو مجھے غصہ میں مبتلا کر دے یا دشمن کی طرف جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنایا اگر تو مجھ پر ناراض نہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں لیکن تیری عافیت مجھے درکار ہے میں پناہ چاہتا ہوں تیرے چہرے کے نور سے جس کے ساتھ تو نے اندھیروں کو جلا بخشی اور اسی کے ساتھ دنیا اور آخرت کا معاملہ درست ہوا۔ اس چیز سے کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو۔ یا تیری ناراضگی مجھ پر حلال ہو۔ تیرے ہی لیے دونوں جانب ہیں یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے تیری توفیق کے بغیر نیکی کی طاقت اور گناہوں سے بچا نہیں جا سکتا۔“ مسائل : 1۔ کفار کی باتوں سے غم زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ 2۔ عزت وسطوت اللہ کے لیے ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے اور ہر بات کو سننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : عزت اور ذلت اللہ کے اختیار میں ہے : 1۔ ہر قسم کی عزت اللہ کے لیے ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ (یونس :65) 2۔ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ (آل عمران :26) 3۔ عزت اللہ ہی کے پاس ہے۔ (فاطر :10) 4۔ کیا اللہ کے ماسوا عزت تلاش کرتے ہوحالانکہ ہر قسم کی عزت اللہ ہی کے پاس ہے۔ (النساء :139)