قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ لَكُم مِّن رِّزْقٍ فَجَعَلْتُم مِّنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ
کہہ کیا تم نے دیکھا جو اللہ نے تمھارے لیے رزق اتارا، پھر تم نے اس میں سے کچھ حرام اور کچھ حلال بنا لیا۔ کہہ کیا اللہ نے تمھیں اجازت دی ہے، یا تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔
فہم القرآن : (آیت 59 سے 60) ربط کلام : قرآن مجید دنیا کی دولت سے بے بہا گنا بہتر ہے۔ لیکن دنیا دار لوگ اس کے مقابلہ میں دنیا کے مال کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ دنیا کی ہوس میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اللہ کے حلال کو حرام اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حلال کو حرام اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلینے والوں سے پوچھیں کہ انہوں نے کبھی غور کیا کہ انہیں کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حرام و حلال کو تبدیل کریں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی اجازت دی ہے؟ یا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ کیا انہوں نے اس کی سزا پر کبھی غور کیا ہے کہ قیامت کے دن ان پر کیا گزرے گی۔ منکرین اسلام سے جب یہ بات پوچھی جائے تو وہ اپنی حرام خوری، بے حیائی اور کفرو شرک کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں جس بناء پر انہیں بین السطور وارننگ دی گئی ہے کہ دنیا میں تم حرام و حلال کی تمیز کیے بغیر مزے اڑا رہے ہو۔ لیکن قیامت کے دن تمہیں اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بے حدو حساب فضل و کرم کرتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ شکر گزار نہیں ہوتے۔ حلال و حرام کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کا شاید اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں حرام قرار دی ہیں اس میں بھی اس کا فضل کار فرما ہے۔ حرام و حلال کی فہرست پر انسان غور کرے تو وہ بے ساختہ پکار اٹھے گا کہ واقعی جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا وہ نہ صرف جسمانی اعتبار سے نقصان دہ ہیں بلکہ روحانی حوالے سے بھی انتہا درجے کی مضر ہیں۔ درندوں کا گوشت اسی لیے کھانے سے منع کیا گیا کہ ان میں شفقت اور مہربانی کا جذبہ کم ہوتا ہے اگر ان کا گوشت کھانے کی اجازت ہوتی تو انسانوں میں درندگی کے آثار بڑھ جاتے۔ خنزیر کا گوشت اس لیے حرام قراردیا یہ پرلے درجے کا بے غیرت جانور ہے۔ جانوروں میں کوئی ایسا جانور نہیں، جو اپنی جنم دینے والی مادہ کے ساتھ جفتی کرنے کے لیے تیار ہو۔ لیکن خنزیر اپنے جنم دینے والی مادہ کے ساتھ بھی جفتی کرلیتا ہے۔ جہاں تک غیر اللہ کے نام دی ہوئی چیز کھانے کا معاملہ ہے اس کا تعلق روحانی اور ایمانی غیرت کے ساتھ ہے جس کے کھانے کی توقع توحید کی غیرت رکھنے والے شخص سے نہیں کی جاتی۔ یہاں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فضل کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس فرمان کی دوسری وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کا ذکر فرما کر اشارہ دیا ہے کہ اگر دنیا میں حلال و حرام کے بارے میں اللہ کی حدود توڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ نہیں پکڑتا جو اللہ کا عظیم فضل ہے۔ اس میں اس کی حکمت یہ ہے کہ شاید لوگ توبہ کرلیں تیسری وجہ بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار چیزیں حلال فرمائی ہیں مگر ان کے مقابلے میں حرام چیزوں کی فہرست بالکل مختصر رکھی ہے۔ ہر چیز کا مالک اور عطا کرنے والا صرف اللہ ہے۔ مگر مشرک اسے کسی اور کی عطا سمجھتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بر خلاف کسی مزار یا بت وغیرہ کے نام پر دیتا ہے۔ ایسی چیز کو توحید کی غیرت رکھنے والا شخص کس طرح کھا یا استعمال کرسکتا ہے۔ اسی غیرت کے پیش نظر غیر اللہ کے نام پر وقف کی ہوئی چیز کو کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ مسائل : 1۔ کچھ لوگ اپنی مرضی سے حلال و حرام بنا لیتے ہیں۔ جو اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ پر افترا باندھنے والے قیامت کے دن عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر اپنا فضل کرم نازل فرماتا ہے۔ ٤۔ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں کا انجام : 1۔ ان لوگوں کا قیامت کے بارے میں کیا حال ہوگیا جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ (یونس :60) 2۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ پر افترا بازی کرتے ہیں فلاح نہیں پائیں گے۔ (النحل :116) 3۔ اس شخص سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (ہود :18) 4۔ اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (العنکبوت :68)