وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ
اور جس دن وہ انھیں اکٹھا کرے گا، گویا وہ نہیں ٹھہرے مگر دن کی ایک گھڑی، آپس میں جان پہچان کرتے رہے۔ بے شک وہ لوگ خسارے میں رہے جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور وہ راہ پانے والے نہ ہوئے۔
فہم القرآن : (آیت 45 سے 48) ربط کلام : ظالموں کا انجام۔ قرآن مجید کا انکار اور سرور دو عالم (ﷺ) سے تکرار کرنے کی بنیادی وجہ آخرت کا انکار تھا۔ جس آدمی کا یہ عقیدہ ہو کہ میں نے مرنے کے بعد اٹھ کر رب ذوالجلال کی عدالت میں پیش ہونا ہے ایسا شخص زیادہ عرصہ تک قرآن مجید کے حقائق اور صاحب قرآن کی نبوت کا انکار نہیں کرسکتا۔ یہ بے باکی اور غفلت اسی شخص میں پیدا ہوا کرتی ہے جو اپنے رب کی ملاقات کا عملاً یا اعتقاداً منکر ہو۔ اس بناء پر منکرین قرآن کو احساس دلایا جارہا ہے کہ اس دن کو یاد کرو۔ جب سب کو اکٹھا کیا جائے گا تم ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچانو گے۔ باوجود اس کے کہ تم ایک عرصہ تک دنیا میں رہے مگر قیامت کی ہولناکیوں کو دیکھ کر تمہاری کیفیت یہ ہوگی کہ تم یہ خیال کرو گے کہ ہم دنیا میں چند گھڑیوں کے سوا نہیں ٹھہرے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو جھٹلانے والے نقصان میں رہیں گے اور ایسے لوگ ہدایت سے محروم ہوتے ہیں۔ انہیں عذاب کی دھمکی دی جائے یا برے انجام سے ڈرایا جائے تو آپ (ﷺ) سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عذاب جلد آنا چاہیے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آپ کی زندگی میں یہ اس سے دوچار ہوں گے۔ نہیں تو آپ کی وفات کے بعد ان کو وہ کچھ دکھلائے گا جس کا ان کے ساتھ قرآن کے الفاظ میں وعدہ کیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ کام ہو کر رہے گا۔ انہیں بہرصورت ہمارے پاس آنا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے ہر عمل اور بات پر گواہ ہے۔ درحقیقت ہر امت کے لیے رسول ہوتا ہے۔ جو انہیں کھول کھول کر اللہ تعالیٰ کے احکام سناتا اور اس کی نافرمانی سے ڈراتا ہے۔ جب لوگ رسول کی تکذیب کرتے ہیں تو ان کے درمیان نہایت عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اس میں ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی۔ لہٰذا آپ انہیں سمجھاتے رہیں باوجوداس کے یہ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عذاب کا وعدہ کب پورا ہوگا۔ کفار کا مطالبہ : ﴿وَاِذْ قَالُوْا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھَٰذَا ھُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِائْتِنَا بَعَذَابٍ اَلِیْمٍ وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَا کَان اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾[ الانفال : 32۔33] ” اور جب انہوں نے کہا اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ اور نہیں اللہ ہے کہ انہیں عذاب دے کہ آپ ان میں ہیں اور اللہ انہیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔“ مسائل : 1۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ایک پل کی مانند ہے۔ 2۔ قیامت کے دن لوگ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ 3۔ قیامت کو جھٹلانے والے ناکام ہوں گے۔ 4۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال پر گواہ ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ رسول بھیجنے کے بعد عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتا ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ٨۔ کفار اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مطالبہ کیا کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : جہنمی قیامت کے دن ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں گے : 1۔ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں جمع کرے گا اور وہ تصور کریں گے گویا کہ وہ دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ (یونس :45) 2۔ جب سارے جہنم میں جمع ہوجائیں گے تو پچھلے اگلوں کی نسبت کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ (الاعراف :38) 3۔ تم پر اللہ کی مار تمہاری وجہ سے اس مصیبت کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ (ص :60) 4۔ اے کاش آپ ان ظالموں کو دیکھتے جب وہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے کی بات کا جواب دیں گے۔ (سبا :31) 5۔ جب وہ جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور ان سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ یقیناً ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاسکتے ہو۔“ (المومن :47) 6۔ مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔ (الرحمٰن :41) 7۔ ظالموں اور ان کے ہم جنسوں اور جن کو وہ پوجتے تھے ان کو اکٹھا کیا جائے گا۔ پھر انہیں جہنم کے راستہ پر چلایا جائے گا۔ (الصٰفٰت : 22تا31)