إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو، یا انھیں نہ ڈرایا ہو، ایمان نہیں لائیں گے۔
فہم القرآن : (آیت 6 سے 7) ربط کلام : لوگوں کی دوسری قسم جنہوں نے حق کا انکار کیا ان کے مزاج اور انجام کا بیان۔ لغت میں کفر کا معنٰی ہے کسی شے کو چھپانا۔ جو شخص نعمت کو چھپائے اور اس کا شکرادا نہ کرے اس کے فعل کو کفر اور کفران نعمت کہتے ہیں۔ سب سے بڑا کفر اللہ کی وحدانیت اور شریعت، نبوت کا انکار ہے۔ قرآن مجید میں کفر کا لفظ کفران نعمت اور کفر باللہ دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (اَلْکُفْرُ عَدَمُ تَصْدِیْقِ الرَّسُوْلِ فِیْمَا عُلِمَ بالضَّرُوْرَۃِ مَجِیْئُہٗ بِہٖ) (تفسیر رازی : ص 306، ج1) ” کفر کے معنٰی یہ ہیں کہ رسول اور پیغمبر کی اس بات میں تصدیق نہ کرنا جس کا بدیہی اور قطعی طور پر دین سے ہونا معلوم ہوچکا ہے۔“ حقائق کا مسلسل انکار اور ہٹ دھرمی پر قائم رہنے والوں کی یہ حالت ہوچکی ہوتی ہے کہ ان کے لیے سمجھانا اور نہ سمجھانا یکساں ہوجاتا ہے۔ ان آیات میں ایک طرف نبی کریم {ﷺ}کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا کام ” اللہ“ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو سمجھانا ہے۔ اگر یہ لوگ حق کا مسلسل انکار کئے جا رہے ہیں تو آپ کو دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور نہ ہی ایسے ہٹ دھرم لوگوں پر مزید صلاحیتوں کو صرف کرنا چاہیے کیونکہ ان کے سچ اور حق کو قبول کرنے والے اعضاء بے کار کردیے گئے ہیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہی ان کی قوت فہم و سماعت ختم کردی ہے اور ان کی بصارت پر پردے ڈال دیے ہیں تو ان کا کیا قصورہے ؟ در حقیقت یہ لوگ آیات کے سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ معنٰی نکال کر اپنی کم فہمی یا منفی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ ان آیات کا مفہوم سمجھنے کے لیے ایک مشفق و مہربان حکیم کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جو کسی مریض کو مرض کے نقصانات بتلا اور دوائی کے فائدے سمجھا کر بار بار دوائی کھلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن مریض نہ صرف اپنا منہ بند کرلیتا ہے بلکہ ہر قسم کی بد پرہیزی اور حکیم کے ساتھ بد تمیزی کرنے میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ مریض کی بد تمیزی اور ہٹ دھرمی دیکھ کر اگر حکیم یہ کہہ دے کہ مریض اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے لہٰذا اسے مرنے ہی دینا چاہیے تو اس میں حکیم کا قصور سمجھا جائے گا یا مریض کا؟ دوسرے مقام پر قرآن مجید نے واضح فرمایا ہے کہ ان کے گناہوں اور کفر کی وجہ سے ان کے کان بہرے، آنکھیں اندھی اور دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں۔ (الاعراف :179) ان آیات میں کفر و شرک کے مریض کی حالت اور نبی کریم {ﷺ}کی بھر پورکوششوں کا نقشہ پیش فرما کر رب کریم نے آپ {ﷺ}کو تسلی دی ہے اور انکار کرنے والوں پر ہمیشہ کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کو اس قدر ہولناک اور اذیت ناک عذاب ہوگا کہ وہ دنیا کی سب نعمتوں اور سہولتوں کو بھول جائیں گے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ {رض}قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ {ﷺ}یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ یَاابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ھَلْ مَرَّبِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَاوَاللّٰہِ یَارَبِّ وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَا وَاللّٰہِ یَارَبِّ مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ) (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب صبغ أنعم أھل الدنیا فی النار.....) ” حضرت انس بن مالک {رض}بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول {ﷺ}نے فرمایا : روز قیامت دنیا میں سب سے زیادہ ناز و نعمت میں پلنے والے جہنمی کو لا کر آگ میں غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے کبھی کوئی بہتری دیکھی؟ کیا تجھے کوئی نعمت ملی؟ تو وہ کہے گا : اللہ کی قسم! اے میرے رب میں نے کوئی نعمت نہیں دیکھی۔ پھر ایک جنتی کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ تکلیفوں میں رہا اسے جنت میں داخل کر کے پوچھا جائے گا اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف اور سختی دیکھی؟ وہ عرض کرے گا نہیں اللہ کی قسم! مجھے کبھی کوئی تکلیف اور مصیبت نہیں آئی۔“ مسائل : 1- کفر پر پکے لوگوں کو سمجھانا یا نہ سمجھانا ایک جیسا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : جن لوگوں کے دلوں پر اللہ نے مہریں لگائی ہیں : 1- ہم اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتے ہیں۔ (یونس: 74) 2- اللہ تعالی نے انکے کفر کی وجہ سے انکے دلوں پر مہر لگا دی۔ (النساء: 155) 3- اللہ کفار کے دلوں پر مہر ثبت کرتا ہے۔ (الأعراف: 101) 4- جو لوگ ایمان لائے اور اس کے بعد کفر کیا اللہ نے انکے دلوں پر مہر لگا دی۔ (المنافقون: 3) 5- اللہ ہر تکبر کرنے والے سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن: 35) 6-اللہ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت فرمادی سو وہ نہیں جانتے۔ (التوبہ: 93)