سورة یونس - آیت 7

إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 7 سے 8) ربط کلام : اتنے کھلے اور بھاری دلائل موجود ہونے کے باوجود کچھ لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ کر اس پر راضی ہوچکے ہیں۔ آخرت کے انکار کا پہلا اور بنیادی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان دنیا کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کی ساری محنت دنیا کی خاطر ہوتی ہے۔ انسان دنیا کی ہوس میں اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس کے سامنے اخلاقی قدروں اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ضابطوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، وہ معمولی مفاد کی خاطر ایمان اور اپنی عزت کو بیچ دیتا ہے۔ بسا اوقات دنیا کے لالچ میں اس قدر اندھا ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے جگر گوشوں سے بھی زیادہ دولت، منصب اور شہرتپیاری ہوتی ہے۔ یہ مفاد پرستی اور غفلت کی انتہا ہے۔ بڑی سے بڑی دلیل اور عبرت ناک حادثات بھی اس کی آنکھوں سے غفلت کی پٹی ہٹا نے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے جس میں انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض)‘ قَالَ: خَطَّ النَّبِیُّ () خَطَّامُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ فَقَالَ ھٰذَا الْاِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ اَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطُوْطُ الصِّغَارُ الْاَعْرَاضُ فَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا وَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : باب فی الامل وطولہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے ایک دفعہ ایک مربع شکل کا خط کھینچا اور وسطی خط کے درمیان سے کچھ خطوط کھینچے۔ ایک درمیان سے باہر نکلنے والا خط کھینچا اور فرمایا‘ یہ انسان ہے۔ اور یہ مربع اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور جو خط باہر نکل رہے ہیں‘ وہ اس کی خواہشات ہیں۔ اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط آفات وبیماریاں ہیں۔ اگر ایک سے محفوظ رہا تو یہ دوسری اسے آلے گی۔ اگر یہ بھی اس سے خطا کر جائے‘ تو تیسری آفت اسے اپنا نشانہ بنالے گی۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ () قَالَ لَوْکَان لابْنِ اٰدَمَ وَادِیَانِ مِنْ مَّالٍ لَابْتَغٰی ثَالِثًا، وَلَا یَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ اٰدَمَ إِلَّاالتُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) [ رواہ البخاری : باب مایتقی من فتنۃ المال] ” حضرت ابن عباس (رض) نبی گرامی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں‘ تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا۔ ابن آدم کے پیٹ کو مٹی ہی بھر سکتی ہے اور اللہ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ (عَنْ سَھْلِ ابْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () یُحْشَرُالنَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی اَرْضٍ بَیْضَاءَ عَفْرَاءَ کَقُرْصَۃِ النَقِیِّ لَیْسَ فِیْھَا عَلَمٌ لِاَحَدٍ) [ رواہ البخاری : باب یقبض اللہ الارض ] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا قیامت کے روز لوگوں کو سرخی مائل سفید زمین پر جمع کیا جائے گا زمین میدے کی روٹی کی مانند ہوگی زمین پر کسی قسم کا نشیب و فراز نہ ہوگا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے منکر اور دنیا کی عیش و عشرت پر مطمئن ہونے والے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات سے غافل ہوتے ہیں۔ 2۔ جو لوگ دنیا کے پیچھے لگ کر اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ تفسیر بالقرآن : جہنمیوں کا اپنے گناہوں کا اعتراف : 1۔ اللہ سے ملاقات کی امید نہ رکھنے اور اللہ کی آیات سے غفلت برتنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (یونس 7۔8) 2۔ جہنمی جہنم میں چلائیں گے اور کہیں گے اے ہمارے رب ہمیں جہنم سے نکال دے ہم برے اعمال کی بجائے نیک عمل کریں گے۔ (فاطر :37) 3۔ اے ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا تھا اور ہم کافر ہوئے۔ (المومنون :106) 4۔ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا یہاں سے نکلنے کا راستہ ہے۔ (المومن :11)