أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ
اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ بے شک وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 126 سے 127) ربط کلام : منافقین کا دنیا میں انجام۔ منافق دوغلے کردار کا انسان ہوتا ہے۔ ظاہر ہے دوغلاپن کبھی نہ کبھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ جب آدمی کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے تو سوائے رسوائی اور شرمندگی کے اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہی حالت منافقین مدینہ کی تھی۔ ہر سال ایک یا دو مرتبہ انہیں اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔ جب یہ قسمیں اٹھا اٹھا کر اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے تو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے نبی اکرم (ﷺ) کو آگاہ فرما دیتے کہ یہ لوگ جھوٹی قسمیں اٹھا رہے ہیں۔ تبوک سے واپسی پر بھی ان کے جھوٹ کی قلعی کھول دی گئی۔ سورۃ التوبۃ: 95۔ 96۔ ان کی حرکتوں کی وجہ سے جب مسلمان ان کے ایمان پر شبہ کرتے تو یہ لوگ حلف دیتے نہیں تھکتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ منافقین حلف دیتے ہیں کہ محمد (ﷺ) واقعی اللہ کا رسول ہے۔ لیکن یہ اپنی شہادت میں جھوٹے ہیں۔ جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ محمد (ﷺ) حقیقتاً اللہ کا رسول ہے۔ ( المنافقون :1) یہی حالت غزوات اور صدقات کے موقع پر ان کی ہوا کرتی تھی۔ غزوہ احد کے موقع پر پوری دنیا کے سامنے رسوا ہوئے، غزوہ خندق کے موقعہ پر ہر اعتبار سے بے نقاب ہوئے۔ فتح مکہ کے دوران ان کی منافقت کی قلعی کھول دی گئی۔ تبوک کے محاذنے تو انہیں پوری طرح رسوا کردیا، رہی سہی کسر مسجد ضرار کے مسمار کرنے سے نکل گئی۔ اس طرح قرآن مجید کا فرمان ان پر صادق آیا کہ یہ سال میں ایک یا دو مرتبہ ملکی اور قومی سطح پر ذلیل ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں حالانکہ کم سے کم عقل رکھنے والا انسان بھی ایک دو دفعہ ذلیل ہونے کے بعد سنورنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن منافق نظریات اور کردار کے حوالے سے نجس اور پلید ہوتا ہے جس وجہ سے وہ سدھرنے کی بجائے بگڑتا چلا جاتا ہے۔ جس وجہ سے انہوں نے دنیا کی رسوائی اور آخرت کی ذلت قبول کرلی مگر اخلاص نیت کے ساتھ اسلام قبول کرنا پسند نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی بدنیتی اور مذموم حرکات کی وجہ سے ان کے دلوں کو اسی طرف پھیر دیا۔ جس طرف یہ پھرنا پسند کرتے تھے۔ ایسے لوگ سمجھنے اور ہدایت پانے والے نہیں ہوتے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔ 2۔ منافقین منافقت کی وجہ سے نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ 3۔ منافقین بار بار مشکلات میں مبتلا ہونے کے باوجود توبہ نہیں کرتے۔ 4۔ منافقین اللہ کی آیات سے منہ موڑتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔ 5۔ منافق قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن : منافقین کا قرآن مجید کے ساتھ رویہّ: 1۔ جب قرآن مجید کا نزول ہوتا تھا تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبۃ:127) 2۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا؟ (التوبۃ:124) 3۔ قرآن کا جب کوئی حصہ نازل ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول سے مل کر جہاد کرو تو وہ بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبۃ:86) 4۔ جب کوئی محکم سورۃ نازل ہوتی اور اس میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ (سورہ محمد :20)