مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقیناً وہ جہنمی ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : مومنوں کی صفات بیان کرنے سے پہلے جہاد و قتال کے ذکر کے دوران فرمایا تھا کہ مومنوں سے ان کی جان و مال کے بدلے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ جب مسلمانوں کو کفار اور مشرکین کے خلاف جہاد کرنے کا حکم ہے تو پھر مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا کیا معنی؟ اسی سورۃ کی آیت 80میں منافقین کے حق میں استغفار سے منع کیا گیا ہے اور اب مشرکین کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اکثر مفسرین نے اس کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نبوت کے آٹھویں سال جناب ابو طالب شدید بیمار ہوئے اور ان کے جانبر ہونے کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ نزع کے وقت رسول کریم (ﷺ) اپنے چچا ابو طالب کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے آپ کو احساس ہوا کہ چچا کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ جب آپ ان کے سرہانے کے قریب خالی جگہ پر بیٹھنے لگے تو ابو جہل جو اپنے ساتھیوں سمیت جناب ابو طالب کے ہاں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ رسول محترم کو دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کر ابو طالب کے قریب خالی جگہ پر جا بیٹھا تاکہ نبی اکرم (ﷺ) اپنے چچا سے کوئی خاص بات نہ کرسکیں۔ اس صورت حال میں نبی اکرم (ﷺ) نے اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر اپنے محسن چچا کو مخاطب فرماتے ہوئے توجہ دلائی کہ چچا اگر اب بھی آپ میرا کلمہ طیبہ پڑھ لیں تو میں قیامت کے روز اللہ کے حضور آپ کی سفارش کروں گا۔ قریب تھا کہ جناب ابو طالب کلمہ شہادت پڑھ لیتے مگر ابوجہل اور اس کے دوسرے ساتھیوں نے اسے غیرت دلانے کے انداز میں کہا کیا آپ آخری وقت باپ دادا کے دین سے منحرف ہوجائیں گے؟ جناب ابو طالب نے نہایت نحیف آواز میں کہا کہ نہیں میں اپنے باپ دادا کے عقیدہ پر مرنا پسند کرتا ہوں۔ انہی الفاظ کے ساتھ ان کی روح پرواز کرگئی۔ اس پر رسول محترم نہایت رنجیدہ خاطر ہو کر اپنے گھر تشریف لائے۔ آپ کو اس حالت میں چچا کے مرنے کا انتہائی صدمہ ہوا بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ آپ (ﷺ) نے اپنی طرف سے اپنے چچا سے وعدہ کیا تھا کہ میں بہرحال آپ کے لیے استغفار کی دعا کروں گا۔ اس پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی اور آپ کے ساتھیوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کریں بے شک مشرک ان کے کتنے ہی عزیز کیوں نہ ہوں۔ مشرکوں کے لیے ابدی جہنم ہے شرک اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں غیروں کو شریک کرنے کا نام ہے۔ یہ جرم اللہ تعالیٰ سے غداری کے مترادف ہے غدّار کو کوئی بھی معاف نہیں کیا کرتا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَھْوَنُ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًا اَبُوْطَالِبٍ وَھُوَمُتَنَعِّلٌ بِنَعْلَیْنِِِِ یَغْلِیْ مِنْھُمَا دِمَاغُہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب أھون أھل النار عذابا] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا، دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب ابوطالب کو ہوگا وہ آگ کے دو جوتے پہنے ہوئے ہوگا جس کی وجہ سے اس کا دماغ ابل رہا ہوگا۔“ مسائل : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) کو مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی اجازت نہ تھی۔ 2۔ کسی مسلمان کی شان نہیں کہ وہ مشرک کے لیے مغفرت کی دعا کرے۔ 3۔ ایمان کے مقابلہ میں رشتہ داری کی کوئی حیثیت نہیں۔ 4۔ مشرک یقیناً جہنمی ہے۔ تفسیر بالقرآن : مشرک اور منافق کے لیے دعائے مغفرت کرنے کی ممانعت : 1۔ نبی اور مومنین کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ (التوبۃ:113) 2۔ آپ منافقین کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (المنافقون :6) 3۔ آپ منافق کے لیے ستر بار بھی مغفرت طلب کریں اللہ اسے نہیں بخشے گا۔ (التوبۃ:80) 4۔ منافقین میں سے جو مرے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں اور نہ ہی آپ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔ (التوبۃ:84) 5۔ ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا وعدے کی بنیاد پہ کی تھی۔ جب ان کے لیے واضح ہوگیا کہ وہ جہنمی ہے تو انہوں نے برأت کا اظہار کردیا۔ (التوبۃ:114)