سورة التوبہ - آیت 101

وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان لوگوں میں سے جو تمھارے ارد گرد بدویوں میں سے ہیں، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں، تو انھیں نہیں جانتا، ہم ہی انھیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انھیں دو بار عذاب دیں گے، پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 101 سے 102) ربط کلام : منافقین کے دوسرے اور تیسرے طبقہ کا ذکر، مدینہ کے منافقین کا ذکر کرنے کے بعد اب ان منافقین کا بیان ہوتا ہے جو مدینہ اور اس کے مضافات میں رہتے تھے۔ مومنوں کے اعلیٰ طبقات بیان کرنے کے بعد منافقین کے اس گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو مدینہ اور اس کے مضافات میں رہنے کی وجہ سے ہر وقت مسلمانوں کے ساتھ جڑے رہتے تھے لیکن حقیقتاً پکے منافق تھے مگر تمام کام مسلمانوں جیسے کرتے اور ہر کام میں مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے۔ اس وجہ سے عام مسلمان ان کے اصلی کردارسے ناواقف تھے۔ یہ منافق مسلمانوں کے لیے آستین کے سانپ تھے۔ جنہیں پہچاننا عام مسلمانوں کے بس کی بات نہیں تھی اس لیے یہ گاہے بگاہے سازشیں کرتے رہتے تھے۔ غزوہ تبوک سے واپسی پر بارہ منافقین نے اپنے چہروں پر کپڑے لپیٹ کر رات کے وقت اللہ کے رسول کو قتل کرنے کی سازش کی تھی جب آپ نے انھیں پہچان کر للکارا تو وہ لشکر میں گھس گئے۔ آپ نے ان کے نام حضرت حذیفہ (رض) کو بتلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ راز رکھنا اور انھیں نظر انداز کردیا جائے۔ منافقین کی سازشیں اور شرارتیں اس لیے تھیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان سے بار بار درگزر کیا۔ ان میں اکثر غریب اور کنگلے تھے مال غنیمت ملنے پر دولت مند ہوئے جس کی وجہ سے یہ منافقت میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو ان کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا جاتا مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی بے پناہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود اگر یہ لوگ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے لیے میری طرف سے خیر کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو اللہ تعالیٰ انھیں دنیا اور آخرت میں اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور ان کے لیے کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ یہی منافقین کفار کو مسلمانوں کی سرگرمیوں سے پل پل باخبر رکھتے تھے۔ ان سے الگ تھلگ رہنا تمدنی لحاظ سے مشکل تھا کیونکہ ان کا رہن سہن بظاہر مسلمانوں جیسا تھا، پھر وہ مسلمانوں کے ساتھ پرانی رشتے داریوں کی وجہ سے جڑے ہوئے تھے ان کے نفاق اور سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ مسلمانو! تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ انہیں خوب جانتا ہے۔ اس نشان دہی کے بعد مسلمانوں کو ایسے منافقوں کو پہچاننا آسان ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی منافقین کو انتباہ کیا گیا کہ عنقریب تمھیں دوگنا عذاب دیا جائے گا اور پھر مرنے کے بعد تمہیں عظیم عذاب میں مبتلا رہنا ہوگا۔ دوگنے عذاب سے مراد حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک یہ ہے کہ دنیا میں مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوں گے اور آخرت میں شدید ترین عذاب سے دوچار ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیمار تو مومن بھی ہوا کرتا ہے جس کا جواب ابن عباس (رض) یہ دیا کرتے تھے کہ بیماری اور تکلیف کے وقت مومن کے گناہ جھڑتے اور آخرت میں اس کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں بیماری اور تکلیف کے وقت منافق اپنی منافقت میں اور زیادہ ہوجاتا ہے اور آخرت میں اسے دوگنا عذاب ہوگا۔ کچھ اہل علم نے یہ لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد کچھ منافقین کو نبی اکرم (ﷺ) نے خطبہ جمعہ کے دوران مسجد سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ (واللہ اعلم) اس طرح منافق دنیا میں ذلیل ہوئے اور مرنے کے وقت ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ رسید کرتے اور انھیں جھڑکیاں دیتے ہوئے ذلیل کریں گے۔ ایسے لوگوں کو دوگنا عذاب اس لیے دیا جاتا ہے کہ یہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ گویا کہ گناہوں کے سرغنہہونے کی وجہ سے دوگنا عذاب پائیں گے۔ منافقین کا تیسرا طبقہ : یہ لوگ عقیدہ کے اعتبار سے منافق نہ تھے لیکن ان کے عمل مخلص مسلمانوں جیسے نہ تھے۔ گویا کہ اعتقادی نہیں عملی منافق تھے۔ ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عملی کمزوریوں کو معاف کر دے گا کیونکہ بڑا مہربان اور معاف کردینے والا ہے۔ منافقین کی سزا : ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا﴾[ النساء :145] ” یقیناً منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے تم ان کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔“ مسائل : 1۔ منافق کو دنیا اور آخرت میں عذاب ہوگا۔ 2۔ گناہ کا اعتراف کرنے اور معافی مانگنے سے اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ ہی توبہ قبول کرتا ہے : 1۔ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبۃ:104) 2۔ اللہ غلطیاں معاف کرکے توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی :25) 3۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی اللہ نے توبہ قبول فرمائی۔ (التوبۃ :102) 4۔ غلطی کی اصلاح کرنے والوں کی اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ:160) 5۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ:222) 6۔ جس نے ظلم کرنے کے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح کی، اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (المائدۃ:39) 7۔ اللہ ہر توبہ کرنے والے کو معاف فرما دیتا ہے۔ (طٰہٰ:82) 8۔ جو گناہ کرنے کے بعد جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (النساء :17)