وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور بدویوں میں سے کچھ وہ ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں قربتوں اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سن لو! بے شک وہ ان کے لیے قرب کا ذریعہ ہے، عنقریب اللہ انھیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : دیہاتی منافقین کے بعد دیہاتی مومنوں کے ایمان اور کردار کا تذکرہ۔ یہ بات کئی مرتبہ عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید کی عدل پسندی اور طرز بیان ہے کہ جہنم کے ساتھ جنت، برے انجام کے ساتھ اچھے انجام، کفار اور منافقین کے بیان کے معاً بعد مخلص مسلمانوں اور مومنوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ تاکہ قارئ قرآن کو دونوں کردار اور انجام کا تجزیہ کرنے میں آسانی رہے چنانچہ اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ دیہات میں رہنے والے سب کے سب کافر اور منافق نہیں بلکہ ان میں ایسے خوش بخت بھی ہیں جو اپنے رب پر کامل ایمان اور قیامت کے دن اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کا پکا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کے پیچھے ان کی صرف اور صرف یہی تمنا ہوتی ہے کہ انہیں اپنے رب کا قرب حاصل ہو۔ اور رسول کریم (ﷺ) خوش ہو کر ان کے لیے دعائے خیر کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور رسول اکرم (ﷺ) کی دعائیں ان کے لیے دنیا اور آخرت کا خزانہ ہیں۔ ان کے اخلاص اور نیک اعمال کی وجہ سے انہیں خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ خوش ہوجاؤ کہ اللہ کی قربت و رحمت تمہارے لیے ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کی کمزوریوں کو معاف کرتے ہوئے ان پر رحم و کرم فرمانے والا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیم کے پیش نظر نبی اکرم (ﷺ) صدقہ کرنے والے صحابہ (رض) کے بارے میں یہ الفاظ استعمال فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک موقع پر آپ (ﷺ) کی خدمت میں صدقہ پیش کیا جس پر آپ نے مجھے اس دعا سے نوازا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ اَبِیْ اَوْفٰی (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) اِذَا اَتَاہُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِھِمْ قَال اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ فُلَانٍ فَاَتَاہُ اَبِیْ بِصَدَقَتِہٖ فَقَالَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفٰی (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ اِذَا اَتَی الرَّجُلُ النَّبِیَّ (ﷺ) بِصَدَقَتِہٖ قَالَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَیْہِ)[ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ ] ” حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کے پاس جب لوگ زکوٰۃ لے کر آتے تو آپ (ﷺ) ان کے لیے دعا فرماتے۔ اے اللہ فلاں کے اہل و عیال پر رحمت فرما۔ میرے والد آپ کی خدمت میں زکوٰۃ لے کر آئے تو آپ نے دعا فرمائی اے اللہ ابو اوفی ٰکے اہل وعیال پر رحمت نازل فرما۔ دوسری روایت میں ہے جب کوئی آدمی زکوٰۃ پیش کرتا تو آپ دعا کرتے کہ اے اللہ اس پر رحمت فرما۔“ مسائل : 1۔ دیہاتیوں میں سے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ 2۔ ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کی قربت کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ 3۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے اللہ کی رحمت کے حقدار ہوتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی رحمت فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہونے والے لوگ : 1۔ اللہ، انبیاء کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرتا ہے۔ (الانبیاء :86) 2۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت سے ہمکنار کرتا ہے۔ (الانبیاء :75) 3۔ ایمان میں پختہ رہنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (النساء :175) 4۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (الشورٰی :8) 5۔ اللہ کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ( الاعراف :156) 6۔ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف :56) 7۔ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ (التوبۃ:99)