الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بدوی لوگ کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور زیادہ لائق ہیں کہ وہ حدیں نہ جانیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 97 سے 98) ربط کلام : شہری منافقین کے ذکر کے بعد دیہاتی منافقوں کا ذکر۔ کفر اور منافقت بذات خود بد ترین روحانی اور اخلاقی امراض ہیں۔ مگر دیہاتی ماحول کی وجہ سے ان میں اور بھی شدت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ دیہات میں تہذیب و تمدن کا فقدان، تعلیم و تربیت کی کمی، آب و ہوا کی شدت اور جسمانی مشقت کی وجہ سے دیہات میں رہنے والوں کی طبیعت میں سختی اور اجڈپن پیدا ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے دیہات کے لوگ غلط یا صحیح جس نظریہ کو اپنا لیں اس پر اس قدر سخت ہوجاتے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتے۔ پھر دیہات کے لوگوں میں خاندانی عصبیت اور قومی تعصب بھی شہروں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر وہ کفر و نفاق میں سخت تر ہوتے ہیں۔ یہی کیفیت رسول معظم (ﷺ) کے زمانے میں مدینے کے مضافات میں رہنے والے دیہاتیوں کی تھی۔ یہ لوگ جس قدر مدینہ سے دور رہتے تھے اسی قدر ان میں اسلام اور نبی (ﷺ) کے بارے میں نفرت اور دوری پائی جاتی تھی۔ کیونکہ عصبیت اور بعد مکانی کی وجہ سے انھیں اخلاقی قدروں اور دینی حدود کا علم نہیں تھا اور نہ ہی اپنی جہالت اور عصبیت کی وجہ سے حدود اللہ کو جاننے کی کوشش کرتے تھے۔ جس وجہ سے یہ دیہاتی کفرو نفاق میں متشدّد ہوتے چلے گئے کیونکہ یہ منافق تھے اپنی منافقت چھپانے کے لیے مسلمانوں جیسے اعمال کرتے تھے۔ لیکن جہاد کے موقع پر جب ان سے دفاعی فنڈ کی اپیل کی جاتی تو یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ پر بوجھ محسوس کرتے بلکہ یہ اس انتظار میں رہتے کہ مسلمانوں پر کب کوئی افتاد پڑے۔ اور ہماری جان چھوٹ جائے اس لیے ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اسے اتار پھینکیں۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر یہ لوگ اسی انتظار میں تھے کہ مسلمانوں کو رومیوں کے ہاتھوں ذلت ناک شکست ہوگی اور ہمیں اسلام سے آزادی مل جائے گی۔ لیکن معاملہ ان کی امیدوں کے برعکس ہوا۔ اور یہ لوگ زندگی بھر اسی ذہنی کشمکش میں رہے۔ یہاں تک کہ انہیں موت نے آلیا۔ اس آیت میں ﴿ عَلَیْھِمْ دَائِرَۃُ السَّوْءِ﴾ کے الفاظ میں منافقوں کو اسی بھیانک مستقبل کی وارننگ دی گئی ہے۔ مَغْرَمًا : معناہ غرما واصلہ لزوم الشی[ قرطبی] اس کا معنی جرمانہ ہے یعنی کسی چیز کو لازم کردینا۔ دَآءِرَۃُ السَّوْءِ۔ کا معنی ہے اچھی حالت کا بری حالت سے بدل جانا جسے گردش زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اب تو وہ دل پر جبر کرکے کچھ نہ کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن وہ دلی طور پر اس بات کے خواہاں ہیں کہ گردش زمانہ مسلمانوں کی قوت ختم کر دے اور ہم چندہ دینے سے بچ جائیں اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا ﴿ عَلَیْھِمْ دَائِرَۃُ السَّوْءِ﴾” برے ایام تمھارا ہی مقدر ہیں۔“ مسائل : 1۔ دیہاتی نفاق میں زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ 2۔ دیہاتی احکام اور حدود و قیود کا زیادہ علم نہیں رکھتے۔ 3۔ منافق انفاق فی سبیل اللہ کو جرمانہ سمجھتے ہیں۔ 4۔ منافقین اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ مسلمان کب گردش ایام کا شکار ہوتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ کی راہ میں خرچ کرنا : 1۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبۃ:99) 2۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا :39) 3۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد :22) 4۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران :134) 5۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ:261) 6۔ منافق صدقہ کرنے کو جرمانہ سمجھتا ہے۔ (التوبۃ:98)