يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ۖ فَإِن تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ
تمھارے لیے قسمیں کھائیں گے، تاکہ تم ان سے راضی ہوجاؤ، پس اگر تم ان سے راضی ہوجاؤ تو بے شک اللہ نافرمان لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ منافقوں کے بارے میں مزید ناراضگی کا اظہار۔ منافقین کے بارے میں مزید سختی کرتے ہوئے نبی اکرم (ﷺ) کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر آپ ان کی جھوٹی قسموں، مصنوعی عاجزی اور ظاہری درماندگی پر راضی ہو بھی جائیں تو یاد رکھیں اللہ تعالیٰ ہرگز ان پر راضی نہیں ہوگا۔ کیونکہ حقیقتاً یہ لوگ نافرمان ہیں اس آیت میں یہ اصول دو ٹوک انداز میں سمجھا دیا گیا ہے کہ اصل رضامندی اللہ ہی کی ہوتی ہے اگر نبی آخر الزماں بھی کسی شخص سے راضی ہوجائیں تو یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوجائے۔ اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں تاکہ لوگ اپنے باطل عقیدہ پر غور کرسکیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نوسو سال سمجھا یا۔ لیکن قوم ایمان نہ لائی بالآخر خضرت نوح (علیہ السلام) کی بددعا کے نتیجہ میں قوم پر عذاب آیا اور انکا بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے غرقِآب ہوا حضرت نوح (علیہ السلام) نے بے ساختہ اپنے رب سے فریاد کی کہ الٰہی! آپ نے میرے اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا مگر میرا بیٹا میرے سامنے ڈبکیاں لے رہا ہے۔ اس پر نوح (علیہ السلام) کو ان الفاظ میں وارننگ دی گئی کہ اے نوح یہ تیرے اہل میں سے نہیں کیونکہ یہ اعمال صالح کا خوگر نہیں۔ (ھود۔ ٤٦) جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس پر راضی نہ ہو اس پر وقت کا پیغمبر بے شک وہ اس کا باپ ہی کیوں نہ ہو راضی ہوجائے تو پیغمبر کی رضا ربِّ ذوالجلال کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ نبی اکرم (ﷺ) کا اپنی بیٹی اور خاندان کو نصیحت کرنا : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ، اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللَّہِ، یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللَّہِ، یَآ أُمَّ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ عَمَّۃَ رَسُول اللَّہِ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، اشْتَرِیَا أَنْفُسَکُمَا مِنَ اللَّہِ، لاَ أَمْلِکُ لَکُمَا مِنَ اللَّہِ شَیْئًا، سَلاَنِی مِنْ مَّالِی مَا شِئْتُمَا) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب باب من انتسب الی آباۂ فی الاسلام والجاہلیۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا اے بنی عبد مناف اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچالو، اے بنی عبدالمطلب اپنے آپ کو اللہ سے بچا لو، اے زبیر بن عوام کی والدہ، رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ بنت محمد اپنے آپ کو اللہ سے بچا لو۔ میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ میرے مال میں سے جو لینا چاہتی ہو لے لو۔“ آپ (ﷺ) کی دعا کے باوجود عبداللہ بن ابی کا انجام : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ لَمَّا تُوُفِّیَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ جَاءَ ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ إِلٰی رَسُول اللّٰہِ َ فَسَأَلَہٗ أَنْ یُّعْطِیَہٗ قَمِیصَہٗ یُکَفِّنُ فیہِ أَبَاہُ فَأَعْطَاہُ ثُمَّ سَأَلَہٗ أَنْ یُّصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقَامَ رَسُول اللّٰہِ َ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ تُصَلِّی عَلَیْہِ وَقَدْ نَہَاکَ رَبُّکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّمَا خَیَّرَنِی اللّٰہُ فَقَالَ اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً وَسَأَزِیدُہٗ عَلَی السَّبْعِیْنَ قَالَ إِنَّہٗ مُنَافِقٌ قَالَ فَصَلّٰی عَلَیْہِ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) فَأَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَی قَبْرِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا۔ اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول معظم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آپ سے قمیص کا مطالبہ کیا کہ اس میں اس کے والد کو کفن دیا جائے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے اسے قمیص عنایت کردی۔ پھر اس نے آپ (ﷺ) سے نماز جنازہ پڑھانے کی گزارش کی۔ جب رسول معظم (ﷺ) نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے رسول معظم (ﷺ) کے کپڑے کو پکڑکرعرض کی اے اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان لوگوں کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع کیا ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یہ تو منافق ہے۔ پھر رسول اکرم (ﷺ) نے اس کی نماز پڑھائی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” آپ ان میں سے کسی پر بھی نماز نہ پڑھائیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔“ (التوبۃ:84) مسائل : 1۔ منافق رسول اللہ (ﷺ) کو یقین دلانے کے لیے جھوٹی قسمیں اٹھاتے تھے۔ 2۔ نبی اکرم (ﷺ) اللہ کی رضا کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ نبی (ﷺ) کی رضا کا پابند نہیں۔ 3۔ منافق اپنے رب کا نافرمان ہوتا ہے۔ 4۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔