وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ
اور تجھے ان کے اموال اور ان کی اولاد بھلے معلوم نہ ہوں، اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان کے ذریعے دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق کے انجام میں اس کے مال اور اولاد کا کردار۔ منافقین کے مال اور اولاد پر تعجب نہ کرنے کا حکم اس سورۃ میں دوسری مرتبہ نازل ہوا ہے چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ یہ حکم آیت 55میں گزر چکا ہے اب پھر قریب، قریب انھی الفاظ کے ساتھ حکم ہوتا ہے کہ اے نبی ! منافقین کے مال و اسباب اور ان کی اولاد پر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی مسلسل نافرمانیوں اور دائمی منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انھیں ان کے مال اور اولاد کے ساتھ دنیا میں سزا دے اور کفر کی حالت میں ہی ان کی جانیں نکل جائیں۔ یہ بات پہلے عرض ہوئی ہے کہ منافقین کے اکثر لوگ مال اور اولاد کے حوالے سے بہت سے مسلمانوں سے آگے تھے۔ لیکن انھوں نے اپنے مال سے آخرت کمانے کی بجائے جہنم خریدنا بہتر جانا۔ جہاں تک ان کی اولاد کا تعلق ہے چند کے سوا باقی اپنے بڑوں کی روش اختیار کیے ہوئے تھی۔ جن منافقوں کے بیٹے مخلص مسلمان تھے۔ ان کے باپ اپنے بیٹوں کے اخلاص پر نہایت پریشان رہتے اور انھیں اللہ کے رسول کی رفاقت اور جہاد فی سبیل اللہ سے روکتے۔ اس صورت حال کو وہ اپنے لیے ذلت سمجھتے تھے۔ گویا کہ دنیا اور آخرت میں ان کے مال اور اولاد عذاب کا باعث ثابت ہوئے۔ مسائل : 1۔ محض دنیاوی مال ومتاع پر اکتفا کرنے کے بجائے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔ 2۔ منافقین کے لیے دنیاوی مال عذاب کا سبب ہے۔ 3۔ کافرومنافق مال واولاد کے فتنے میں مبتلا رہتے ہیں۔