وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ
اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ نافرمان تھے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ دنیا میں منافق کے لیے آخری سزا۔ منافقین کو بار بار موقع دینے اور پے درپے آزمانے کے بعد مرحلہ وار سخت احکامات جاری ہوئے۔ اسی سورۃ کی آیت ٧٣ میں حکم ہوا کہ منافقین پر سختی کا وقت آگیا ہے۔ لہٰذا ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیجیے۔ پھر آیت ٨٠ میں ارشاد ہوا کہ ان کے لیے دعائے مغفرت سے اجتناب فرمائیں بالفرض آپ ٧٠ مرتبہ بھی بخشش کی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ ان کی نماز جنازہ سے روکنے سے پہلے فرمایا کہ اب ہمیشہ کے لیے انھیں شرکت جہاد سے روک دیجیے کیونکہ یہ کبھی مخلص ہو کر ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اب آخری حکم صادر ہوتا ہے کہ اے نبی ! اگر منافقین میں سے کوئی مر جائے تو نہ اس کا جنازہ پڑھنا اور نہ ہی اس کی قبر پر تشریف لے جانا کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے والے اور اسی حالت میں مرنے والے ہیں۔ یہاں فسق سے مراد بھی کفر ہے اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جب منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا تو اس کے بیٹے جن کا نام بھی عبداللہ (رض) تھا جو نہایت ہی مخلص، اسلام کے بارے میں خوددار، اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ محبت کرنے والا تھا۔ اس نے آکر عرض کی کہ اللہ کے رسول میرے باپ کے بارے میں آپ کو سب کچھ معلوم ہے اس کے باوجود آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس کا جنازہ پڑھائیں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے نبی اکرم (ﷺ) فطری طور پر نہایت ہی مہربان اور درگزر کرنے والے تھے۔ آپ نے فرمایا جب جنازہ تیار ہو تو مجھے اطلاع کرنا۔ آپ جنازہ پڑھنے کے لیے نکلے تو حضرت عمر (رض) نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی اس ظالم کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے کہ انھیں ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا اس کے جواب میں رحمت عالم نے فرمایا کہ مجھے اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ اگر میں چاہوں تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرسکتا ہوں۔ لہٰذا میں ستر مرتبہ سے زائد بھی اس کے لیے دعا کرنے کے لیے تیارہوں۔ چنانچہ آپ نے جنازہ پڑھا اور اسے دفناتے ہوئے اس کے منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا اور اپنا مبارک کرتہ اس کی لاش کے اوپر رکھا مفسرین نے لکھا ہے کہ آپ نے دو وجہ سے اس کے جسم پر اپنا کرتہ ڈالا تھا۔ ایک تو اس خواہش کے ساتھ کہ شاید اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ غزوۂ احد کے موقع پر حضرت عباس (رض) قیدیوں میں شامل تھے افراتفری میں ان کا کرتا پھٹ گیا جس کے لیے عبداللہ بن ابی ابن سلول نے اپنا کرتہ دیا تھا آپ نے اسی احسان کا بدلہ چکایا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا کہ نبی اکرم (ﷺ) نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ میرے جنازہ پڑھنے کی وجہ سے اسے کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن ایک ہزار منافق مسلمان ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہوا لیکن مجھے اس روایت کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا بہر صورت جب آپ جنازہ پڑھا کر واپس تشریف لائے تو یہ حکم صادر ہوا کہ آئندہ آپ کو کسی منافق کا جنازہ پڑھنے اور اس کی قبر پر کھڑا ہونے کی اجازت نہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول معظم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آپ سے قمیص کا مطالبہ کیا کہ اس میں اس کے والد کو کفن دیا جائے۔ نبی اکرم (ﷺ) نے اسے قمیص عنایت کردی۔ پھر اس نے آپ (ﷺ) سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ جب رسول معظم (ﷺ) نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے رسول معظم (ﷺ) کے کپڑے کو پکڑکرعرض کی اے اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع کیا ہے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کریں میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یہ تو منافق ہے۔ پھر رسول اکرم (ﷺ) نے اس کی نماز پڑھائی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” آپ منافقوں میں سے کسی پر بھی نماز نہ پڑھائیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔“ [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن ] ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا﴾[ النساء :145] ” بلاشبہ یہ منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور آپ ان کا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔“ مسائل : 1۔ منافق اور بد عقیدہ شخص کی نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ 2۔ منافق بظاہر کلمہ پڑھنے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کا منکر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : مشرک اور منافق کے لیے دعا کرنا جائز نہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (ﷺ) کو منافقین کی نماز جنازہ اور ان کی قبر پر کھڑے ہونے سے منع فرمایا۔ (التوبۃ:84) 2۔ نبی اکرم (ﷺ) اور مومنوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے دعا کریں۔ (التوبۃ:113) 3۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد کے لیے وعدے کے مطابق دعا کرتے رہے۔ 4۔ جب معلوم ہوا کہ یہ اللہ کا دشمن ہے تو پھر دعا نہیں کی۔ (التوبۃ:114)