فَإِن رَّجَعَكَ اللَّهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُل لَّن تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ
پس اگر اللہ تجھے ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے آئے، پھر وہ تجھ سے (جنگ کے لیے) نکلنے کی اجازت طلب کریں تو کہہ دے تم میرے ساتھ کبھی نہیں نکلو گے اور میرے ساتھ مل کر کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑو گے۔ بے شک تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے، سو پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
فہم القرآن : ربط کلام : منافقوں کا ذکر جاری ہے۔ منافقین کو چھوڑجانے کی وجہ یہ بھی تھی کیونکہ وہ خود جھوٹے بہانوں کی وجہ سے جہاد سے پیچھے رہنا چاہتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مبارکہ غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران نازل ہوئی جس میں ایک طرف رسول اکرم (ﷺ) کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب اور بامراد مدینہ واپس لائے گا اور دوسری طرف یہ ہدایت کی گئی جب آپ مدینہ تشریف لائیں تو منافقین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں آ کریہ کہے گا آئندہ ہمیں بھی ضرور اپنے ساتھ جہاد کے لیے لے جائیے صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تبوک کے محاذ سے حقیقی مجبوری کی وجہ سے ہم پیچھے رہے ہیں ورنہ ہم جہاد سے جی کترانے والے نہیں تھے۔ اس موقعہ پر آپ انھیں یہ جواب دیں کہ تم ایسے لوگ ہو کہ ہرگز ہمارے ساتھ نہیں نکل سکتے اور نہ ہی دشمن کے خلاف تم برسرپیکار ہونے کے لیے تیار ہو۔ زبانی جمع خرچ کے سوا تم کسی کام کے لیے تیار نہیں ہوتے کیونکہ ابتدا ہی سے میدان کارزار سے پیچھے رہنا بچوں، عورتوں اور معذور لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہنا تمھاری خواہش اور عادت ہے۔ خالفین کا لفظ بول کر منافقین کو ایک طرح عار دلائی گئی ہے کہ تم صحت مند، مال دار اور ایمان کے بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود معذوروں اور عورتوں کے ساتھ بیٹھے رہنا پسند کرتے ہو جو ایک غیور اور مخلص مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ اس فرمان کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اب کبھی تمھیں شریک جہاد نہیں کیا جائے گا۔ اس اعلان سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ غزوۂ تبوک کے بعد اللہ کے رسول (ﷺ) کو اب کوئی بڑا معرکہ درپیش نہیں ہوگا کیونکہ تبوک کی طرف آپ کی پیش قدمی نے دنیا پر رعب اور دبدبہ طاری کردیا تھا۔ اسی بناء پر آپ کا ارشاد ہے : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَّمَسْجِدًا وَّأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِی سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَائِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْئًا)[ مسند احمد] حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ 1۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ 2۔ میرے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ 3۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ 4۔ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ 5۔ مجھے قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کا حق دیا جائے گا۔ مسائل : 1۔ منافق جہاد سے بچنے کے لیے جھوٹے بہانے تلاش کرتا ہے۔ 2۔ منافق کو بار بار موقع دینے کے بعد ہمیشہ کے لیے مسترد کردینا چاہیے۔ 3۔ منافق کبھی میدان کارزار کے لیے نکلنا پسند نہیں کرتا۔ 4۔ منافق عورتوں اور معذوروں کی طرح جہاد سے پیچھے بیٹھے رہنا پسند کرتا ہے۔