اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
ان کے لیے بخشش مانگ، یا ان کے لیے بخشش نہ مانگ، اگر تو ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کرے گا تو بھی اللہ انھیں ہرگز نہ بخشے گا۔ یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
فہم القرآن : ربط کلام : منافقین پر مزید سختی اور ان کی محرومیاں۔ اس خطاب کے آغاز میں رسول محترم (ﷺ) کو حکم ہوا تھا کہ کفار کے خلاف جہاد کرو اور منافقین پر سختی کرو۔ اب حکم ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی کرلیں ان کے لیے بخشش کی دعا نہیں کرنا۔ اگر آپ ستر (70) مرتبہ بھی ان کے لیے بخشش کی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انھیں معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے والے ہیں۔ ایسے نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے غضب کی انتہا ہوجاتی ہے جس کے لیے اللہ کا رسول یہ بد دعا کرے کہ اے اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت کی توفیق نہ دے۔ جس طرح نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے بارے میں عذاب کی بد دعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے اللہ اب کفار کا ایک شخص بھی باقی نہیں رہنا چاہیے ان میں جو بھی پیدا ہوا وہ فاسق اور کافر ہی پیدا ہوگا۔ اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے آل فرعون کے لیے بد دعا کی۔ الٰہی ! ان کے مال تباہ اور دل سخت کر دے اور انھیں ایمان کی توفیق نہ دے یہاں تک کہ اذیت ناک عذاب آلے۔ ( یونس آیت :88) نبی کریم (ﷺ) تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) سے حوصلہ والے تھے۔ اس لیے آپ (ﷺ) مدینہ میں نو سال تک منافقین کی ہرزہ سرائی اور اذیتیں برداشت کرتے رہے۔ منافق جب بھی آپ کی خدمت میں آکر کوئی بہانہ یا معذرت کرتے آپ اسے قبول فرماتے۔ لیکن اب وہ وقت آچکا تھا کہ ان پر ہمیشہ کے لیے معافی کا دروازہ بند کردیا جائے۔ چنانچہ آپ کو حکم ہوا کہ آپ ان کے لیے ایک نہیں ستر بار معافی طلب کریں اللہ تعالیٰ پھر بھی انھیں معاف نہیں کرے گا۔ یاد رہے اس زمانے میں عربوں کے ہاں کسی بات کی اہمیت اور اس کو بڑھا کر بیان کرنے کے لیے ستر کا عدد استعمال کیا جاتا تھا۔ تاکہ سننے والے کو بات کی اہمیت یا اس کی برائی کا احساس ہوجائے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام رازی (رح) نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ غزوۂ تبوک کے بعد منافقین جب پوری طرح بے نقاب ہوگئے تو ان کا سردار عبداللہ بن ابی نے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے اور اپنے وقار کو بحال کرنے کے لیے نماز کے بعد کھڑا ہو کر اللہ کے رسول کی تعریف کرنے لگا۔ جس پر حضرت عمر (رض) نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا ” بیٹھ جاؤ“ ہمیں تیری حقیقت اچھی طرح معلوم ہوچکی ہے۔ یہ بڑ بڑاتا ہوا مسجد سے باہر نکلا جس پر اس کی برادری کے مخلص مسلمانوں نے اسے سمجھایا۔ برباد کیوں ہوتے ہوجا کر اللہ کے رسول سے معافی مانگو۔ اس پر چلا کر کہنے لگا کہ مجھے معافی اور کسی کی دعا کی ضرورت نہیں۔ اس پر اس آیت کریمہ کا نزول ہوا۔ مسائل : 1۔ منافقین کے لیے دعا کرنا اور نہ کرنا برابر ہے۔ 2۔ اللہ منافقین کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ 3۔ منافق کے جرائم کی وجہ سے اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو معاف نہیں کرے گا : 1۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو معاف نہیں کرے گا۔ (التوبۃ:80) 2۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء :48) 3۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء :116) 4۔ اللہ تعالیٰ مرتد کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء :137) 5۔ اللہ تعالیٰ کفر اور ظلم کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء :168) 6۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو معاف نہیں کرے گا۔ (المنافقون :6) 7۔ اگر آپ منافق کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (التوبہ :80) 8۔ آپ منافقوں کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرئے گا۔ ( المنافقون :6)