قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۖ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ۖ فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ
کہہ دے تم ہمارے بارے میں دو بہترین چیزوں میں سے ایک کے سوا کس کا انتظار کرتے ہو اور ہم تمھارے بارے میں انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تمھیں اپنے پاس سے کوئی عذاب پہنچائے، یا ہمارے ہاتھوں سے۔ سو انتظار کرو، بے شک ہم (بھی) تمھارے ساتھ منتظر ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : منافقین کو دوسرا جواب۔ منافقین کو پہلا جواب یہ دیا گیا تھا کہ جو کچھ ہمیں مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے رب نے ہماری قسمت میں پہلے سے لکھ رکھی ہے۔ ہم اپنے رب کے ہر فیصلے پر راضی ہیں۔ اب ان کو دوسرا جواب دیا جا رہا ہے کہ اے منافقو! تم ہمارے بارے میں دو میں سے کسی ایک بات کا انتظار کرتے ہو۔ یاد رکھو اگر ہمیں میدان کارزار میں موت آجائے یا فتح کی صورت میں کامیابی حاصل ہو۔ دونوں ہی ہمارے لیے بہتر ہیں ہاں ہم بھی تمھارے متعلق اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ براہ راست تم پر اپنا غضب نازل فرمائے یا ہمارے ہاتھوں تمھیں ذلیل کرے۔ بس انتظار کرو ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں، چنانچہ یہی کچھ ہوا کہ منافق دنیا میں ہی ایک ایک کرکے ذلیل ہوئے جن کے بارے میں حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن اللہ کے نبی کی خدمت میں عرض کی کہ اجازت ہو تو میں عبداللہ بن ابی کا سر قلم کردوں لیکن آپ نے فرمایا کیونکہ لوگ اس کے اصلی کردار کو نہیں جانتے اس لیے وہ پروپیگنڈہ کریں گے کہ ” اِنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ اَصْحَابَہٗ“۔ کہ ” محمد (ﷺ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔“ حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ عبداللہ بن ابی لوگوں کی نظر میں ذلیل اور بے اثر ہوگیا۔ (البدایہ والنہایہ) (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تنگدستی آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ انْتَدَبَ اللّٰہُ لِمَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِہٖ لَا یُخْرِجُہٗ إِلَّا إِیمَانٌ بِی وَتَصْدِیقٌ بِرُسُلِی أَنْ أُرْجِعَہٗ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ أَوْ أُدْخِلَہٗ الْجَنَّۃَ وَلَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِی مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِیَّۃٍ وَلَوَدِدْتُ أَنِّی أُقْتَلُ فِی سَبِیل اللّٰہِ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے اعلان کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے رستے میں نکلتا ہے اسے صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نکالتی ہے میں اس کو ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ لٹاؤں گا یا اسے جنت میں داخل کروں۔ اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ محسوس کرتا تو میں کسی بھی غزوۂ سے پیچھے نہ رہتا۔ میں اس بات کی خواہش کرتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔“ مسائل : 1۔ مومن فتح یاب ہو یا شہید ہوجائے اس کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہی اجر ہے۔ 2۔ منافق دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے۔ 3۔ منافق مومن کے لیے برائی کے سوا کچھ نہیں سوچتا۔