سورة التوبہ - آیت 32

يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ نہیں مانتا مگر یہ کہ اپنے نور کو پورا کرے، خواہ کافر لوگ برا جانیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 32 سے 33) ربط کلام : دین حق کے خلاف مشرکین کی مذموم کوششیں۔ مشرکین توحید کا نوربجھانا اور قرآن کی روشنی کو مٹانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اسے مکمل فرماکر قیامت تک غالب رکھے۔ کفار، مشرکین اور اہل کتاب پہلے دن سے ہی اس کو شش میں ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا۔ بے شک یہ کفار اور مشرکوں کے لیے کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ اس نے تو اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ دین اسلام تمام باطل ادیان پر غالب آجائے خواہ مشرکوں اور کفارکے لیے یہ بات کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ نور سے پہلی مراد اللہ کی توحید اور دوسری مراد قرآن مجید کی تعلیم اور رہنمائی ہے کیونکہ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نور قرار دیا ہے۔ (البقرہ :257) میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ ایمانداروں کا خیر خواہ اور دوست ہے وہ انھیں ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیطان ہیں وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں اس آیت سے پہلے آیۃ الکرسی اور دین کا تذکرہ ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کو کھول کر بیان کرتے ہوئے اسے دین اور ہدایت قرار دیا ہے سورۃ المائدۃ میں قرآن مجید کو نور اور روشن کتاب قرار دیا گیا ہے۔ کافر چاہتے ہیں کہ اللہ کی توحید کے چراغ اور قرآن مجید کی تعلیمات اور روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں پھونکوں کا لفظ لا کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جس طرح سورج کی روشنی اور چاند کی ضیاء پاشیوں کو پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا۔ توحید اور اللہ کے دین کی روشنی سورج اور چاند کی روشنی سے کہیں بڑھ کر ہے جس طرح سورج اور چاند کی طرف منہ کرکے تھوکنے اور پھونکنے والا پاگل پن کا مظاہرہ کرتا ہے، کفار، مشرکین اور اہل کتاب کی کوششیں بھی ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کا مظہر ہیں۔ سورۃ الاحزاب : آیت 46اور 47میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) کی دعوت اور ذات کو چمکتے ہوئے سورج سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں انھیں اللہ کے بڑے فضل کی خوشخبری دیجیے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ تمام باطل ادیان پر دین اسلام کو غالب کردے ہدایت سے مراد وہ رہنمائی اور طریقہ ہے جس کی روشنی میں اللہ کے رسول (ﷺ) نے دین کا ابلاغ اور نفاذ فرمایا یہ نبی اکرم (ﷺ) کا طریقہ ہے کیونکہ کوئی دین اور قانون کتنا ہی مفصل کیوں نہ ہو اس کے سمجھنے اور نفاذ کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہاں بالہدیٰ کا لفظ استعمال فرما کر واضح کردیا ہے کہ جس رب نے یہ دین نازل فرمایا ہے اسی نے ہی اپنے نبی (ﷺ) کی رہنمائی کا بندوبست کیا تاکہ اس کی منشا کے مطابق دین کی تشریح اور اس کا نفاذ کرے۔ ﴿لِیُظْہِرَہٗ﴾ کا معنی ہے زبردست کشمکش جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دین آسانی کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا جب تک کفار، مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ زبردست کشمکش اور معرکہ آرائی نہ ہوجائے چنانچہ یہی کچھ ہوا کہ اس دین کے ابلاغ اور نفاذ کے لیے کئی معرکے برپا ہوئے اور نہ معلوم قیامت تک کتنے معرکے پیش آئیں گے۔ دین کے غلبہ سے پہلی مراد اس کا دلائل اور براہین کے ساتھ باطل نظریات اور ادیان پر غالب رہنا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ دین اپنی سچائی اور دلائل کے زور پر باطل ادیان پر غالب رہا اور رہے گا۔ جہاں تک اس کے سیاسی غلبے اور نفاذکا تعلق ہے اس کا دارومدار مسلمانوں کے اخلاص اور کردار پر ہے۔ جب مسلمان جان، مال کا ایثار کرکے دین کو غالب کرنا چاہیں گے تو یقیناً دین سیاسی طور پر بھی غالب رہے گا جس طرح کہ تقریباً ایک ہزار سال تک اس کا غلبہ رہا ہے اور قرب قیامت ایک دفعہ پھر اس کے غلبے کا دور آئے گا بے شک یہ بات کفار اور مشرکین کے لیے کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ ان آیات سے پہلے اور بعد میں اہل کتاب کا ذکر ہے۔ لیکن درمیان میں رسول کی بعثت اور دین کے غلبہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کافر اور مشرک جتنا چاہیں زور لگالیں رسول (ﷺ) کا میاب ہوں گے اور دین غالب آکر رہے گا۔ کفار اور مشرکین کے الفاظ استعمال فرما کر واضح کیا ہے کہ اہل کتاب کا کردار کفار اور مشرکین جیسا ہوچکا ہے۔ (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ () یَقُولُ لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَلَا یَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہٗ اللّٰہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیلٍ عِزًّا یُعِزُّ اللّٰہُ بِہِ الْإِسْلَامَ وَذُلًّا یُذِلُّ اللّٰہُ بِہِ الْکُفْرَ) [ رواہ أحمد] ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) سے سنا آپ فرمارہے تھے یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن رات کا سلسلہ جاری ہے اللہ تعالیٰ ہر کچے پکے مکان میں اس کو داخل کر دے گا۔ معزز کو عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلیل کرے گا۔ معزز کو اللہ تعالیٰ دین اسلام کے ساتھ عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلت کفر سے ملے گی۔“ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ أَحَدٌ حَتّٰی تَکُون السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب تم میں عیسیٰ ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت میں آئیں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے اور جزیہ ختم کریں گے مال ودولت کی اس قدر بہتات ہوگی کوئی اس کو لینے والا نہ ہوگا یہاں تک کہ ایک سجدہ کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () الْمَہْدِیُّ مِنِّی أَجْلَی الْجَبْہَۃِ أَقْنَی الْأَنْفِ یَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا کَمَا مُلِأَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا یَمْلِکُ سَبْعَ سِنِینَ) [ رواہ ابو داؤد : کتاب المہدی] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا مہدی میری اولاد سے ہوگا کشادہ پیشانی، اونچی ناک والا جو عدل وانصاف سے زمین کو بھر دے گا جیسے وہ ظلم وستم سے بھری تھی اور وہ سات برس تک حکمران رہے گا۔“ مسائل : 1۔ کفار ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دین کے دشمن رہے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اسلام کو پوری دنیا پر غالب کرے گا۔ 3۔ مشرکین کی مخالفت اس دین کو غالب آنے سے نہیں روک سکے گی۔ تفسیر بالقرآن : ” اللہ“ کا دین غالب آکر رہے گا : 1۔ وہ ذات جس نے رسولوں کو مبعوث کیا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ (الفتح :28) 2۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور خالصتادین اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ:193)