وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
اور ان لوگوں نے کہا جو نہیں جانتے ہم سے اللہ کلام کیوں نہیں کرتا ؟ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ ایسے ہی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، ان کی بات جیسی بات کہی، ان کے دل ایک دوسرے جیسے ہوگئے ہیں۔ بے شک ہم نے ان لوگوں کے لیے آیات کھول کر بیان کردی ہیں جو یقین کرتے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 118 سے 119) ربط کلام : جس طرح لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانا غلط ہے۔ اسی طرح ان کا براہ راست اللہ تعالیٰ کو دیکھنے یا اس سے براہ راست بات کرنے کا مطالبہ بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت دنیا کی آنکھوں سے کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ اہل کفر کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ جب بھی وہ انبیاء کے مقابلے میں لا جواب ہوئے تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جس خدا نے آپ کو نبی بنایا ہے وہ براہ راست ہمیں اپنے آپ پر ایمان لانے کا حکم کیوں نہیں دیتا؟ یا پھر ہمارے پاس ایسے دلائل و معجزات کیوں نہیں آتے؟ جن کو دیکھتے ہی ہم آپ کی رسالت اور خدا کی خدائی پر ایمان لانے کے لیے مجبور ہوجائیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کے مطالبہ کو اس لیے در خور اعتناء نہیں سمجھا گیا کیونکہ اس سے زیادہ جہالت پر مبنی کوئی مطالبہ نہیں ہو سکتا۔ مشرکین مکہ سے پہلے بنی اسرائیل نے مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کوہ طور پر خدا کے نور کی ایک جھلک دیکھی تو سارے کے سارے بے ہوش ہوگئے۔ قرآن مجید صاف‘ صاف بتلاتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں انسان کی آنکھ ربِّ کبریا کو نہیں دیکھ سکتی جب کہ اللہ تعالیٰ سب کو دیکھ رہا ہے۔ (الانعام :103) اگر اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو براہ راست حکم دینا اور بات کرنی ہے اور ہر کوئی انبیاء کی طرح پاکباز اور با صلاحیت ہو تو پھر پیغمبروں کی آمد کا مقصد ہی باقی نہیں رہتا۔ اس بے ہودہ سوال کا جواب دینے کی بجائے فقط اتنا فرمایا کہ ان کی زبان اور دل ان لوگوں کی طرح ہوچکے ہیں جنہوں نے ہمیشہ انکار اور تمرّد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایسا مطالبہ کیا ہے۔ جہاں تک کھلے اور واضح دلائل اور معجزات کا تعلق ہے وہ اس سے زیادہ کیا ہو سکتے ہیں کہ ان کے سامنے چاند کا دو ٹکڑے ہونا‘ آپ کا آسمانوں کی رفعتوں سے بلند سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا، قرآن مجید کی ایک ایک پیش گوئی کا حرف بحرف سچ ہونا، معجزات اور آیات کا نازل ہونا۔ پھر آپ {ﷺ}کی ذات گرامی کی شکل میں ایک چلتا پھرتا معجزۂ مجسم بھی ان کے سامنے تھا۔ جس کی نظیر و مثال قیامت تک کوئی پیش نہیں کرسکتا اتنے واضح و بیّن براہین ودلائل پر ایمان تو وہی لوگ لاتے ہیں جو یقین و اعتماد کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ بلا شبہ ہم نے آپ {ﷺ}کو ایسی سچائی کے ساتھ جلوہ گر کیا ہے کہ جس پر ایمان لانے والوں کے لیے دنیا و آخرت کی بشارتیں اور منکروں کے لیے دنیا میں پریشانیاں اور آخرت میں پشیمانیاں ہوں گی۔ میرے نبی! آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ آپ برے کاموں پر انتباہ کرنے اور اچھے کاموں کی اچھی خوشخبری دینے والے ہیں۔ ہم قیامت کے دن یہ سوال نہیں کریں گے کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ جہنم کے سزا وار کیوں ٹھہرے؟ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {رض}أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ {ﷺ}قَالَ أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِیْ وَلَا أَقُوْلُھُنَّ فَخْرًا بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَھُوْرًا وَّأُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ فَأَخَّرْتُھَا لِأُمَّتِیْ فَھِیَ لِمَنْ لَّایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْئًا) [مسند احمد : کتاب ومن مسند بنی ھاشم، باب بدایۃ مسند عبداللہ بن العباس] ” حضرت عبداللہ بن عباس {رض}بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ {ﷺ}نے فرمایا مجھے ایسی پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں اور میں ان کے بارے میں فخر سے بات نہیں کرتا میں تمام سرخ وسیاہ لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور ایک مہینے کی مسافت تک میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی ہے اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال قرار دیا گیا ہے جب کہ مجھ سے پہلے کسی امت کے لیے حلال نہ تھا اور میرے لیے زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنادی گئی ہے اور مجھے شفاعت عطا کی گئی میں نے اسے اپنی امت کے لیے مؤخر کردیا ہے اور وہ ہر اس شخص کی نجات کا ذریعہ بنے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔“ مسائل: 1۔ جاہل اور کافر لوگ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ 2۔ انبیاء کا کام لوگوں کو جہنم سے کھینچنا نہیں بلکہ ان کو اچھے، برے سے آگاہ کرنا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم {ﷺ}کو خوشخبری دینے اور انتباہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا : 1۔ بنی اسرائیل نے اللہ کو دیکھنے اور اس سے ہم کلامی کا مطالبہ کیا۔ (النساء :153) 2۔ اللہ تعالیٰ براہ راست کسی سے کلام نہیں فرماتا۔ (الشورٰی :51) 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ پر دے میں بات کرتا تھا۔ ( الشورٰی :51)