مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ
مشرکوں کا کبھی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : مشرکین اور کفار کے ساتھ اس لیے بھی قتال کرنے کا حکم ہوا۔ تاکہ ان سے حرم ہمیشہ کے لیے خالی کروالیا جائے۔ سورۃ التوبہ کے تعارف میں عرض کیا تھا کہ اس کی اکثر آیات فتح مکہ کے موقع پر نازل ہوئیں اس لیے قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیتے ہوئے مشرکین مکہ کی اس حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے جس بناء پر وہ پوری دنیا میں بالخصوص سرزمین عرب میں معزز اور محترم جانے جاتے تھے۔ لوگوں کی نظروں میں یہ اللہ کے گھر کے متولی اور خدمت گارتھے جس وجہ سے ان کا احترام کیا جاتا تھا لوگ سمجھتے کہ ان میں کوئی خاص خوبی نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ انھیں کیونکر اپنے گھر کا متولی اور خدمت گار بناتا۔ اس بنا پر لوگ انھیں مقدس اور محترم سمجھتے تھے اور مکے والے بھی اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ اور مسجد حرام کے متولی اور حجاج کرام کے خادم ہیں لہٰذا ہم مسلمانوں سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔ اہل مکہ اور لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ مشرکین کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں کیونکہ ان کا قول و فعل ان پر گواہ ہے کہ وہ مسجد حرام اور بیت اللہ کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور شرک کرنے والے ہیں۔ جب کہ بیت اللہ اور مسجد حرام کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنا ہے اور اسی مقصد کے لیے ہی مساجد بنائی جاتی ہیں۔ جب کافر اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا اور مشرک اس کی خالص عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا پھر انھیں یہ حق کیونکر دیا جا سکتا ہے کہ وہ مسجد حرام اور دیگر مساجد کے متولی بن کر رہیں انھیں تو مسجد میں آنے کی بجائے بتوں، مزاروں اور آتش کدوں میں جا کر ہی خوار ہونا چاہیے۔ لہٰذا انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسجد حرام یا کوئی اور مسجد تعمیر کریں اور اس کی تولیت یا خدمت و خطابت کے ذریعے لوگوں سے مراعات اور احترام حاصل کریں۔ ان کے اعمال ضائع ہوئے اور یہ لوگ ہمیشہ کے لیے جہنم رسید ہوں گے۔ لہٰذا مساجد کو وہی لوگ تعمیر کریں اور وہی انھیں آباد کریں جو اللہ اور آخرت پر خالصتاً ایمان رکھتے ہوئے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے والے ہیں اگر ایسے لوگوں سے کوئی چوک ہوجائے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی رہنمائی کرے گا غیر اللہ سے ڈرنے سے مراد حقیقی اور دائمی خوف ہے جو صرف مشرک کے دل میں ہوا کرتا ہے کیونکہ مشرک بتوں، مزارات اور یہاں تک کہ درختوں سے ڈرتا اور کانپتا ہے یہی وجہ ہے کہ بے شمار شرک کرنے والے مزارات اور بت خانوں میں لگے ہوئے درختوں سے پتہ توڑنے کی جرأت نہیں کرتے کہ کہیں بت یا قبر والا ناراض نہ ہوجائے ان کے مقابلے میں مواحد صرف اللہ تعالیٰ کا خوف ہی دل میں بٹھائے رکھتا ہے کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی نفع دے سکتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں ہدایت کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرے اگر وہ کسی دوسرے کا خوف اپنے دل میں محسوس کرے گا تو حقیقت سمجھنے کے باوجود اسے اپنانے سے خوف زدہ رہے گا۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہُ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہٗ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! ابن جدعان زمانہء جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اس کو اس کا کوئی فائدہ ہوگا ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا نہیں، کیونکہ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطائیں معاف کرنا۔“ گویا کہ وہ آخرت کا منکر تھا۔ مسائل : 1۔ مشرکین کو بیت اللہ میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں۔ 2۔ مشرک کو کسی مسجد کا متولی نہیں ہونا چاہیے۔ 3۔ شرک اور کفر سے آدمی کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن : مشرک انتہائی ذلیل ہوتا ہے : 1۔ مشرک پلید ہوتا ہے۔ (التوبۃ:28) 2۔ مشرکوں کو لائق نہیں کہ مسجد حرام کے قریب آئیں۔ (التوبۃ:17) 3۔ مشرکوں کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ (الانعام :88) 4۔ مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الفتح :6) 5۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ:72)