كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ
کیسے ممکن ہے جبکہ وہ اگر تم پر غالب آجائیں تو تمھارے بارے میں نہ کسی قرابت کا لحاظ کریں گے اور نہ کسی عہد کا، تمھیں اپنے مونہوں سے خوش کرتے ہیں اور ان کے دل نہیں مانتے اور ان کے اکثر نافرمان ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 8 سے 10) ربط کلام : عہد اور رشتہ داری کے بارے میں کفار اور مشرکین کا رویہ۔ مشرکین اور اسلام دشمن طاقتوں کا ہمیشہ سے رویہ رہا ہے کہ جب مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں تو صلح اور اتحاد کا پرچم اٹھاکر مسلمانوں کو زبانی کلامی راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لیے، بقائے باہمی، انسانی ہمدردی اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے نعرے لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان باتوں کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور دل ہی دل میں یہ انکار کررہے ہوتے ہیں۔ جونہی مشکل وقت گزر جائے اور اپنے آپ کو طاقت ورمحسوس کریں تو کسی معاہدے اور تعلق داری کا پاس نہیں کرتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ہمیشہ مالی فائدہ اور سیاسی مفاد رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے بدلے دنیا کمانے سے نہیں چوکتے اس طرح وہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں مکہ کے مشرکین کا یہی رویہ تھا کہ جوں جوں اللہ کی آیات کا نزول ہوتا توں توں دنیا کے مفاد اور دین کی مخالفت میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ ان کا فکر و کردار ہمیشہ بدترین رہا ہے یہ لوگ مسلمانوں کے بارے میں کسی رشتہ داری اور عہد کا خیال نہیں رکھتے دراصل یہ زیادتی کرنے والے لوگ ہیں مدینہ میں یہودیوں کی بار بار عہد شکنی اور مشرکین کا صلح حدیبیہ کو توڑنے سے لے کر تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے ہر دور میں مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی ہے۔ یہاں سقوط غرناطہ کا واقعہ عیسائیوں کی عہد شکنی کی ناقابل فراموش مثال پیش خدمت ہے : ابو عبداللہ نے قصر الحمرء میں ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ جس میں غرناطہ کے بڑے بڑے شیوخ وعمائد اور امراء ووزراء شریک تھے۔ ان میں جو بعض بڑے پرجوش اور غیرت مند تھے ان کی رائے قطعی طور پر یہی تھی کہ مسلمانوں کو اپنے آخری قطرہ خون تک لڑنا چاہیے چاہے انجام کچھ بھی ہو۔ بہر حال غرناطہ کو اس طرح دشمن کے حوالہ کردینا سخت ننگ وعار اور بزدلی کی بات ہے۔ لیکن اکثریت کے نقارخانہ میں اکیلے طوطی کی آواز کیا اثر پیدا کرسکتی ہے؟ آخر ابو عبداللہ نے اپنے وزیر ابو القاسم عبدالملک کی معرفت فرڈیننڈ سے صلح کی بات چیت شروع کی اور انجام کار ایک صلح نامہ مرتب ہوا جس پر شاہ کیسٹل اور ابو عبداللہ دونوں کے دستخط ہوگئے اور اس پر مسلمانوں کی حکومت کا جو تقریباً آٹھ سو سال قائم تھی بالکل خاتمہ ہوگیا۔ یہ صلح نامہ جو درحقیقت مسلمانان اندلس کی بدبختی کی آخری دستاویز تھا جیسا کہ امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب ” آخر نبی سراج“ میں تصریح کی ہے کہ یہ پچپن دفعات پر مشتمل تھا۔ ان میں سے چند اہم دفعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ” تمام چھوٹے بڑے مسلمانوں کو امن دیا جائے گا۔ ان کے اموال اور جاگیریں اور جائیدادیں سب محفوظ رہیں گی۔ ان کے مذہبی معاملات وخصومات کا تصفیہ خود مسلمان قاضی یا حاکم کرے گا۔ جنگ میں جو مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آگیا ہے اس کو غصب نہ کیا جائے گا۔ مقررہ ٹیکس کے علاوہ ان پر کوئی زائد ٹیکس نہ لگایا جائے گا۔ جو عیسائی مسلمان ہوگئے ہیں ان کو ترک اسلام پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ اور اسی طرح کسی مسلمان کو بجز عیسائی بنانے کی کوشش نہ کی جائے گی۔ اگر کوئی مسلمان افریقہ جانا چاہے تو حکومت اس کو اپنے انتظام پر افریقہ پہنچائے گی۔ کوئی عیسائی کسی مسلمان کے گھر داخل نہ ہوگا اور نہ ہی اس کی دیوار پر چڑھے گا۔ مسلمانوں کو عیسائی فوجیوں کی دعوت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو لباس میں پوری آزادی رہے گی۔ یعنی انہیں کسی خاص وضع قطع کے اختیار کرنے یا کوئی خاص علامت لگانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ کوئی عیسائی کسی مسلمان کا راہ چلتے یا کہیں اور مذاق نہ اڑائے گا۔ اس پر فقرہ نہ کسے گا۔ اس کے ساتھ تمسخر نہ کرے گا۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کو سزا دی جائے گی جو مسلمان جنگی مجرم ہیں اس کو رہا کردیا جائے گا۔ اگر کوئی مسلمان غلام اپنے مالک کے پاس سے بھاگ کر غرناطہ آجائے تو اسے مامون سمجھاجائے گا۔ بادشاہ اس کی قیمت غلام کے مالک کو ادا کردے گا۔ یہ معاہدہ عیسوی تاریخ کے لحاظ سے 30دسمبر 1491 مطابق یکم ربیع الاول 897ھ کو ہوا تھا اور اس پر علاوہ فرڈیننڈ کے ملکہ ازبلا، شاہی خاندان کے شہزادے اور شہزادیاں پادری اور دیگر مذہبی پیشوا، امراء اور وزراء دربار وعمائدو ارکان سلطنت کے دستخط ثبت تھے۔ اور اس میں فرڈیننڈ اور اس کی بیوی ازبلا نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ دونوں اس صلح نامہ کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کی پابندی کریں گے اور جس طرح یہ عہد نامہ خود ان دونوں کے لیے اور ان کے تمام حکام وعمال اور امراء واعیان کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح ان کے قائم مقام، ان کی اولاد، اور ان کی اولاد کی اولاد سب اس عہد نامہ کے مطابق عمل کریں گے اور اس سے سر موانحراف نہ کریں گے۔ یہ عہد نامہ تو وہ تھا جس کا تعلق عام مسلمانوں اور ان کے مفاد سے تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور عہد نامہ ترتیب دیا گیا۔ جو خاص ابو عبداللہ کی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ اس عہد نامہ میں چودہ دفعات تھیں جن کا ماحصل یہ تھا کہ شاہ فرڈیننڈ اور ازبلا ان دونوں نے کچھ املاک واراضی اور شہر سلطان ابوعبداللہ کو دیے ہیں۔ انہیں میں سے ایک البشرات بھی تھا۔ علاوہ بریں اس بات کا بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ ابو عبداللہ کو وہاں کے سکہ کے حساب سے جس کو ” یراوید“ کہا جاتا تھا ایک کڑور چالیس لاکھ اور پانچ سو کی رقم ادا کی جائے گی۔ لیکن شرط یہ تھی کہ یہ رقم اس وقت حوالے کی جائے گی جب کہ فرڈیننڈ اور ازبلا قلعہ الحمرء میں داخل ہوجائیں گے۔ پھر خاص ابو عبداللہ سے یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ جب تک وہ اندلس میں قیام کرے گا اس سے کوئی محصول نہیں لیا جائے گا۔ اور اگر اس نے کبھی اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور آباد ہونا چاہا تو اس کی زمینوں اور جائیدادوں کو مناسب قیمت پر خرید لیاجائے گا۔ اگر اس نے ان کو فروخت کرنا نہ چاہا تو وہ اپنا کوئی قائم مقام یا کارندہ ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے چھوڑ جائے۔ وہ ہر سال جائیدادوں اور جاگیروں کی آمدنی وصول کر کے ابوعبداللہ کو بھیج دیا کریگا۔ ابو عبداللہ بحری سفر کرے گا تو اس کے تمام متعلقین کے لیے کشتیوں وغیرہ کا انتظام فرڈیننڈ کی حکومت کی جانب سے کیا جائے گا۔ امیر شکیب رسلان کی تحقیق کے مطابق یہ دوسرا معاہدہ بتاریخ 25دسمبر 1491ء کو ہوا تھا۔ یہ یا در کھنا چاہیے ابو عبداللہ نے اپنے وزیر کے توسط سے یہ معاہدہ بالا بالا ہی کرلیا تھا۔ اہل غرناطہ کو اس کی کوئی خبر نہ تھی جب ان کو معلوم ہوا تو وہ سخت برہم اور پریشان ہوئے۔ حامد بن زرارۃ نامی ایک درویش کے جوش دلانے اور اکسانے پر بیس ہزار اہل غرناطہ مسلح ہو کر جنگ کرنے کے لیے نکلے بھی لیکن کچھ ایسے اسباب سماویہ پیش آئے کہ یہ اس مشکل سے عہدہ براء نہ ہوسکے اس واقعہ کے دوسرے دن ابوعبداللہ شہر کے روساء کی ایک جماعت کے ساتھ قلعہ الحمرء سے نکلا اور مسلمانوں کو خطاب کر کے کہا : ” مسلمانوں ! میں اقرار کرتا ہوں کہ اس ذلت ورسوائی میں کسی کا کوئی گناہ نہیں ہے گنہگار صرف میں ہوں میں نے اپنے باپ کے ساتھ نافرمانی اور سرکشی کا معاملہ کیا، اور دشمنوں کو ملک پر حملہ کرنے کی دعوت دی لیکن بہر حال خدانے مجھ کو میرے گناہوں کی سزادے دی ہے تاہم یہ باور کرنا چاہیے کہ میں نے اس وقت یہ معاہدہ جو قبول کیا ہے محض اس لیے کیا ہے کہ تم لوگوں اور تمہارے بچوں کے خون خواہ مخواہ نہ بہیں۔ تمہاری عورتیں لونڈیاں اور باندیاں نہ بنیں اور تمہاری شریعت اور تمہاری املاک ومتاع ان بادشاہوں کے زیر سایہ محفوظ رہیں جو بہرحال بد نصیب ابو عبداللہ سے بہتر ہوں گے۔“ فرڈیننڈ کی طرف سے دو ماہ دس دن کی مدت دی گئی تھی کہ ابو عبداللہ اس مدت کے اندر اندر فرڈیننڈ کا قبضہ الحمراء پر کرا دے گا۔ لیکن ابو عبداللہ اس درجہ پریشان اور سراسمیہ تھا کہ اس نے اس مدت سے پہلے ہی مندرجہ بالا تقریر کے دوسرے دن فریننڈ کو پیغام بھیجا کہ شہر پر قبضہ کر لیجیے۔ فرڈیننڈ نے ایک پادری کو مقرر کیا کہ سب سے پہلے وہ ایک جماعت کیساتھ غرناطہ میں داخل ہو کر قلعہ الحمراء کے سب سے بڑے برج سے اسلامی نشان کو گرا کر اس کی جگہ صلیب کا نشان نصب کرے تاکہ اسے دیکھتے ہی پرجوش طریقہ سے بادشاہ اور اس کی ملکہ شہر میں داخل ہوں۔ اسی قرارداد کے مطابق اب دونوں طرف غرناطہ کو الوداع کہنے اور اس میں داخل ہونے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ایک جانب بدنصیب ابو عبداللہ اور اس کا تمام خاندان تھا جو رات بھر اپنا سازوسامان درست کرتا رہا اور غرناطہ سے پیش آنے والی جدائی کے غم میں الحمراء کے ایک ایک درودیوار کو حسرت وافسوس سے تکتا اور ان پر آنسو بہاتا رہا اور دوسری طرف شاہ کیسٹل کے کیمپ میں خوشی کے شادیا نے بج رہے تھے کہ بس اب رات کا تاریک پر دہ درمیان میں حائل ہے۔ اس کے اٹھنے کی دیر ہے کہ علیٰ الصباح غرناطہ پر قبضہ ہوجائے گا۔ چنانچہ ابو عبداللہ علیٰ الصباح اپنے متعلقین کو لے کر الحمراء سے نکلا اور ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس کو فرڈیننڈ کا فرستادہ پادری مع ایک جماعت کے ملا۔ ابو عبداللہ نے قلعہ کی کنجیاں اس کے سپرد کرتے ہوئے کہا ” جاؤ ! اب ان قلعوں پر قبضہ کرلو جن کو اللہ نے ہماری بد اعمالیوں کے باعث ہمارے قبضہ سے نکال کر تمہارے قبضہ میں دے دیا ہے“ پادری نے الحمراء میں داخل ہو کر امر شاہی کے مطابق اسلامی نشان کو گرا کر اس کی جگہ صلیبی پرچم لہرایا۔ فرڈیننڈ، ازبلا اور تمام عیسائی فوج نے اسے دیکھا تو ان کی خوشی کی حد نہ رہی فوراً بادشاہ اور ملکہ گھٹنوں کے بل بارگاہ خداوندی میں شکر بجا لائے۔ تمام فوج نے ان کی پیروی کی اس سے فارغ ہو کر یہ لوگ غرناطہ میں داخلہ کے لیے روانہ ہوئے دریا کے کنارے ایک چھوٹی جامع مسجد تھی ابھی وہاں پہنچے ہی تھے کہ یہاں ابو عبداللہ مل گیا۔ ابو عبداللہ نے فرڈیننڈ کو دیکھتے ہی چاہا کہ سواری سے اتر پڑے لیکن بادشاہ اور ملکہ دونوں نے منع کیا۔ اب ابو عبداللہ نے چاہا کہ بادشاہ کی دست بوسی کرے لیکن اس نے اسے یہ بھی نہ کرنے دیا۔ امیر شکیب ارسلان نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو عبداللہ نے ملکہ ازبلا کے ہاتھوں کو چومنا چاہاتو اس نے اپنے ہاتھ نہ پھیلائے اور ابو عبداللہ کا اضطراب دیکھ کر اسے دلاسہ دیا۔ ابو عبداللہ کا جو بیٹا اس کے پاس بطور ضمانت گرفتار تھا۔ وہ اس کے سپرد کردیا اس کے بعد ابو عبداللہ نے شہر کی کنجیاں بادشاہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا ” یہ کنجیاں اسپین میں عربوں کے اقتدار کی آخری نشانی ہیں۔ آپ انہیں لے لیجیے۔ کیونکہ اللہ کی مشیت کے مطابق اب ہمارا ملک، متاع اور ہمارے جسم یہ سب آپ کی ملکیت ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ آپ نے جیسا وعدہ کیا اسی طرح آپ ان کے ساتھ رحم وکرم اور رافت ونرمی کا معاملہ کریں گے۔“ فرڈیننڈ نے جواب دیا ” کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے جو وعدہ کیا ہے اس کے مطابق ہی معاملہ کریں گے۔“ اس گفتگوکے بعدکنجیاں فرڈیننڈ نے ملکہ ازبلا کے سپرد کردیں اس نے اپنے بیٹے پرنس جو ن کو دیں اور جون نے کاؤنٹ ٹنڈل کے حوالے کردیں جو غرناطہ کا کمانڈر بنایا گیا تھا۔ اب فرڈیننڈ اس کی ملکہ ازبلا، اور اس کا تمام لاؤ لشکر غرناطہ کی طرف اس پر قبضہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ادھر بدبخت وبدنصیب ابو عبداللہ نے وادی برشانہ میں اس مقام کا رخ کیا جو اس کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک پہاڑی پر کھڑے ہوکراس نے اپنی پشت کی جانب ایک حسرت آمیز نگاہ سے غرناطہ کی آبادی اور قصر الحمراء کے میناروں اور گبندوں پر نظر ڈالی۔ اس کے تمام ساتھی بھی اس وقت اس کے ساتھ غرناطہ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن ان کی زبانیں گنگ تھیں۔ منہ سے ایک حرف نہ بول سکے ابھی وہ اس حسرت انگیز اور درد ناک نظارہ میں محو ہی تھے کہ قلعہ الحمراء کے اوپر سے تو پوں اور گولوں کے چلنے کی آواز آئی۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب غرناطہ سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی اور عیسائیوں کی فوج نے اسے فتح کرلیا ہے۔ ابو عبداللہ اس وقت ضبط نہ کرسکا بے ساختہ اس کا جی بھر آیا اور زاروقطار رونے لگا۔ ابو عبداللہ کی ماں عائشہ جو نہایت عقل مند عورت تھی۔ اس نے بیٹے کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا تو بولی ” اب عورتوں کی طرح رو رہا ہے۔ لیکن تجھ سے یہ نہ ہو سکاکہ مردوں کی طرح غرناطہ کا دفاع کرتا“ ابو عبداللہ کے وزیر نے بھی اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ البشرات کی پہاڑی جس پرکھڑے ہو کر ابو عبداللہ اور اس کے ساتھیوں نے غرناطہ پر حسرت آمیز نگاہ واپسیں ڈالی ” دم واپسیں عرب“ کے نام سے ہی مشہور ہوگئی۔ اور اب تک اسی نام سے یاد کی جاتی ہے۔ امیر شکیب ارسلان لکھتے ہیں۔ کہ انہوں نے اپنی سیاحت اسپین کے دوران اس مقام کو دیکھا۔ ابو عبداللہ کی وفات : فرڈیننڈ نے البشرات کا علاقہ ابو عبداللہ اور اس کے خاندان کی رہائش کے لیے متعین کردیا تھا۔ اور اس سلسلہ میں اس نے بہت کچھ عہد وپیماں بھی کیے تھے۔ لیکن غرناطہ پر اقتدار پانے کے بعد اس نے تمام عہود ومواثیق کو گلدستہ طاق نسیان بنا کر رکھ دیا۔ چنانچہ ابو عبداللہ پر اندلس کی وسیع سرزمین کا چپہ چپہ تنگ ہوگیا اور آخر کار انجام یہ ہواکہ فرڈیننڈ نے البشرات کا علاقہ بھی اونے پونے کر کے خرید لیا اور ابو عبداللہ اندلس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر افریقہ چلا آیا۔ یہاں مراکش کے بادشاہ کا ملازم ہوگیا اور اسی حالت میں 940ھ میں اس دنیا سے بھی رخصت ہوگیا۔ (بحوالہ مسلمانوں کا عروج وزوال) تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ کی آیات کو فروخت کرنے والے : 1۔ اللہ کی آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو اللہ سے ڈر جاؤ۔ (البقرۃ:31) 2۔ ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے جو اللہ کی آیات کو فروخت کرتے ہیں۔ (البقرۃ:79) 3۔ اللہ کی آیات کو چھپانا اور تھوڑی قیمت کے بدلہ میں فروخت کرنا۔ پیٹ میں آگ بھرنا ہے۔ (البقرۃ: 174تا176) 4۔ اللہ سے ڈر و لوگوں سے نہ ڈرو۔ اور اللہ کی آیات کو فروخت نہ کرو۔ (المائدۃ:44)