يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اے نبی! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو بھی جو تیرے پیچھے چلے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 64 سے 66) ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور اپنی طرف سے اطمینان دلانے کے بعد قتال کا حکم دیا۔ سربراہ کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرتے ہوئے مسلمانوں کو جہاد کرنے کا حکم دینا چاہیے جب مسلمان کردار کے حوالے سے پختہ تھے تو اس وقت کفار کے خلاف تناسب یہ قائم کیا گیا کہ اگر کفار اپنی جارحیت سے باز نہ آئیں تو دس کفار کے مقابلے میں ایک مسلمان کافی ہے یہ تعداد اس لیے کافی ہے کہ کافر موت کی حقیقت سے واقف نہیں وہ قتال اور موت سے اس لیے ڈرتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی مقصد اور منزل نہیں ہوتی۔ جس وجہ سے اس میں وہ جوش اور ولولہ پیدا نہیں ہوتا جو مجاہد کے سینے میں موجزن ہوتا ہے مجاہد موت سے ٹکرانے کے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے مولا کی رضا کی خاطر اس کے دین کی سربلندی کے لیے میدان کا رزار میں اترتا ہے وہ اپنے خالق و مالک سے ملاقات کی تمنا اور اس کی جنت کے لیے جان کی بازی لگا دیتا ہے اسی بناء پر غزوہ احد کے موقع پر ایک صحابی کھجوریں کھا رہے تھے جونہی اس نے قتال فی سبیل اللہ کی آواز سنی تو یہ کہتے ہوئے کھجوریں پھینک دیں کہ اللہ کی قسم مجھے احد پہاڑ کی طرف سے جنت کی خوشبو آرہی ہے ایسا ہی خوبصورت منظر فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے اس وقت دیکھا۔ جب توحید کی پاداش میں اس کے نازک جسم پر میخیں ٹھونکی جا رہی تھیں۔ ﴿قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ﴾ [ التحریم :11] ” اس نے دعا کی : ” اے میرے رب ! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا دے۔ مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا اور ان ظالموں سے بھی نجات دے۔“ مفسرین نے لکھا کہ حضرت آسیہ کو اللہ تعالیٰ نے اس کی موت سے پہلے جنت میں اس کا گھر دکھلایا دیا تھا۔ یہی وہ فرق ہے جو مجاہد اور کافر کے درمیان ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ کافر اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ پہلے حکم کے بعد دوسرا حکم نازل ہوا۔ جس میں تخفیف کردی گئی جسے مضمون میں تسلسل کی خاطر یہاں رکھا گیا ہے۔ آج اس کی صورت یہ ہوگی کہ اگر کفار مسلمانوں پر جنگ مسلط کریں اور جنگی تناسب ایک کے مقابلے میں دس کا ہو تو پھر مسلمانوں پر قتال فرض ہوجائے گا۔ اگر تناسب میں اس سے زیادہ فرق ہو تو پھر مسلمانوں کو حق حاصل ہے کہ وہ کفار کے ساتھ اپنے وقار سے کم درجہ شرائط پر صلح کرسکتے ہیں۔ لیکن جب جنگی تناسب ایک اور دو کا ہو اور کافر تبلیغ اسلام میں رکاوٹ یا مسلمانوں پر جارحیت کرنے لگیں تو ایسی حالت میں مسلمانوں کو اللہ کا حکم سمجھ کر کفار کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے کیونکہ فتح اور شکست اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر مسلمان ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ انھیں ضرور فتح سے سرفراز فرمائے گا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَغَدْوَۃٌ فِی سَبِیل اللّٰہِ أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الغدوۃ والروحۃ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی اکرم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے راستے میں صبح یا شام کو نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔“ (عن ابی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِی سَبِیل اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَنْ یُجَاہِدُ فِی سَبِیلِہِ کَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ وَتَوَکَّلَ اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِہِ بِأَنْ یَّتَوَفَّاہُ أَنْ یُّدْخِلَہٗ الْجَنَّۃَ أَوْ یَرْجِعَہُ سَالِمًا مَعَ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ )[ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب أفضل المؤمنین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اور اللہ تعالیٰ اس شخص کو بہتر جانتا ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے روزے رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والے کی طرح۔ اللہ تعالیٰ اپنے راستے میں جہاد کرنے والے کو یہ بدلہ دے گا کہ اسے جنت میں داخل کرے یا صحیح سلامت واپسی کی صورت میں ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ لوٹائے گا۔“ مسائل : 1۔ سربراہ کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو قتال کے لیے تیار رکھے۔ 2۔ مجاہد کے سامنے اللہ کی رضا اور اس کی جنت ہوتی ہے۔ 3۔ کافر کے سامنے وطن، قوم اور ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ 4۔ جب جنگی تناسب ایک کے مقابلے میں دو ہو تو قتال فرض ہوجاتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : کافر بے وقوف ہوتا ہے : 1۔ متقین کے لیے آخرت کا گھر بہتر ہے مگر کافر نہیں سمجھتے۔ (الاعراف :169) 2۔ میرا اجر میرے پیدا کرنے والے اللہ کے ذمہ ہے بے عقل نہیں سمجھتے۔ حضرت صالح کا اعلان۔ (ھود :51) 3۔ منافق بے سمجھ ہوتے ہیں۔ (المنافقون :7) 4۔ اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا کیونکہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔ (التوبۃ:127) 5۔ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کی اکثریت بے عقل ہوتی ہے۔ ( المائدۃ :103) 6۔ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں اور وہ عقل نہیں کرتے۔ (البقرۃ:171)