وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور ان کے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی، اگر تو زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتا ان کے دلوں کے درمیان الفت نہ ڈالتا اور لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی۔ بے شک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 63 سے 64) ربط کلام : دشمن کے خلاف جہاد میں ہر قسم کی تیاری کے ساتھ قوم میں اتحاد اور محبت کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے پہلی آیت میں حکم تھا کہ کفار کی پیشکش کے پیش نظر مسلمانوں کو ان سے صلح کر لینی چاہیے۔ اب مسلمانوں کی باہمی محبت کا تذکرہ کرنے کے دو مقاصد معلوم ہوتے ہیں۔ بے شک تمھیں دشمن کے ساتھ صلح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس پر یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ وہ تمھارے دشمن ہیں ذرا سوچو تو سہی ماضی میں تم بھی ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کی جس سے تم آپس میں شیر و شکر ہوگئے کیا ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ آج کے دشمن کو تمھارا کل کا مسلمان بھائی بنادے۔ اے نبی آپ زمین بھر کی دولت خرچ کرکے بھی ان کے دلوں کو جوڑ نہیں سکتے تھے یہ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو محبت کے رشتے سے باندھ دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر غالب اور اس کے ہر قول و عمل میں حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ وہ غالب حکمت والا تمھارے اور تمھارے دشمن کے درمیان بھی محبت پیدا کرسکتا ہے۔ یہ الفت جس کی بنا پر حبشہ کے حضرت بلال (رض) فارس کے حضرت سلمان (رض) اور غفار قبیلے کے جناب ابوذر (رض) ایک دوسرے کے اس طرح بھائی بنے کہ حقیقی رشتے بھی پیچھے رہ گئے۔ اسی طرح مدینہ کے اوس اور خزرج کے قبائل شیرو شکر ہوئے جو نبی اکرم (ﷺ) کی مدینہ آمد سے تھوڑی ہی مدت پہلے جنگ بعاث میں ایک دوسرے کے سینکڑوں لوگوں کو قتل کرچکے تھے۔ ان کے درمیان صلح کی دور دور تک گنجائش نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان بھی حقیقی بھائیوں جیسی محبت پیدا فرما دی غزوہ بدر کے تذکرہ اور جہادی تیاریوں کے ضمن میں صحابہ (رض) کی باہمی محبت کا حوالہ دینے کا یہ مقصد بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اشارہ ہے جب تک مسلمان آپس میں اتفاق اور اتحاد قائم رکھیں گے اس وقت تک ہی دشمن پر غالب آسکیں گے کیونکہ جو قوم آپس میں مختلف اور منتشر ہو وہ اسلحہ اور حربی قوت کی بنیاد پر دشمن پر غالب نہیں آسکتی۔ امام رازی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ﷺ) کی حمایت کا کلی وعدہ فرمایا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہ (رض)۔۔ قَالَ وَکَانَ یُعَلِّمُنَا کَلِمَاتٍ وَلَمْ یَکُنْ یُعَلِّمُنَاہُنَّ کَمَا یُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ اللّٰہُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاہْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِکْ لَنَا فِی أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّاب الرَّحِیمُ وَاجْعَلْنَا شَاکِرِینَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِینَ بِہَا قَابِلِیہَا وَأَتِمَّہَا عَلَیْنَا) [ رواہ ابوداؤد، کتاب الصلاۃ باب التشہد] ” حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے۔۔ فرماتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) ہمیں کلمات اس طرح سکھا یا کرتے تھے جس طرح وہ ہمیں تشہد سکھاتے تھے۔ اے اللہ ! ہمارے دلوں میں الفت ڈال دے اور ہمارے درمیان اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں سلامتی کے راستوں کی طرف ہدایت دے۔ ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نجات دے۔ اور ہمیں پوشیدہ اور ظاہری فحاشی سے بچا۔ ہماری قوت سماعت، بصارت، ازواج اور اولاد میں برکت نصیب فرما۔ اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بلاشبہ تو توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اور ان کے قابل بنا۔ اور انہیں ہم پر پورا فرما۔“ مسائل : 1۔ مسلمانوں کی باہمی محبت اللہ کے فضل کا نتیجہ ہے۔ 2۔ اللہ کے سوا کوئی دلوں میں محبت نہیں ڈال سکتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ 4۔ مومن کے لیے اللہ کی مدد کافی ہوتی ہے۔