وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تو بھی اس کی طرف مائل ہوجا اور اللہ پر بھروسا کر۔ بے شک وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 61 سے 62) ربط کلام : مسلمانوں کی بھرپور دفاعی تیاری کے باوجود اگر دشمن صلح کے لیے آمادہ ہو تو مسلمانوں کو ان سے صلح کر لینی چاہیے۔ اسلام کے مخالف ہمیشہ سے یہ پراپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں کہ اسلام جارحیت پسند اور مسلمان جنگ جو قوم ہے۔ حالانکہ اسلام کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ جو کفار تبلیغ دین میں رکاوٹ اور کسی پر ظلم زیادتی نہیں کرتے ان کے ساتھ جنگ نہیں کرنی چاہیے اس آیت میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہاں تک کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ خواہ تم کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہو اگر دشمن تمھارے ساتھ صلح کرنے پر آمادہ ہو۔ تو کسی گھمنڈ میں آنے کے بجائے صلح کی طرف بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لو اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو وہ ہر بات سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اگر صلح کرنے والادشمن بدنیتی کا مظاہرہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے۔ کیونکہ اللہ اور اس پر ایمان لانے والے مومن آپ کی مدد کریں گے۔ یہ اصول اس دشمن کے لیے ہے۔ جس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ کیے گئے معاہدے پر قائم رہے گا اور اگر کسی دشمن نے پہلے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہو تو اسے نہیں کہا جا سکتا۔ صلح کی اہمیت کے پیش نظر مومنوں کو مخاطب کرنے کی بجائے واحد حاضر کی ضمیر لا کر آپ (ﷺ) کو مخاطب فرمایا گیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ صلح اور جنگ کا فیصلہ کرنا قیادت کا کام ہوتا ہے اس لیے قیادت کو اللہ تعالیٰ اور اپنے مخلص ساتھیوں پر اعتماد کرتے ہوئے صلح کر لینی چاہیے۔ کیونکہ مسلمانوں کو ہر حال میں اپنی دفاعی قوت بڑھانے کا حکم ہے لہٰذا صلح کرنے سے انھیں تیاری کا مزید موقع ملے گا۔ صلح کے اقدام سے دشمن کو وسعت ظرفی اعلیٰ اخلاق اور دلیری کا پیغام ملنے کے ساتھ مسلمانوں کے اخلاق اور کردار دیکھنے کا موقعہ ملے گا۔ اسی حکمت کے تحت نبی اکرم (ﷺ) نے مکہ والوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں لوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا نام دیا۔