كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ
(ان کا حال) فرعون کی آل اور ان لوگوں کے حال کی طرح (ہوا) جو ان سے پہلے تھے، انھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا تو اللہ نے انھیں ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا۔ بے شک اللہ بہت قوت والا، بہت سخت عذاب والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 52 سے 53) ربط کلام : مشرکین مکہ کا انجام : جس طرح فرعون اور اس کے ساتھی تکبر اور غرور کی وجہ سے دنیا میں ذلیل اور آخرت میں اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوئے اسی طرح مشرکین مکہ دنیا میں خوار ہوئے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل میں اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے تمھاری طرف ایسا رسول بھیجا ہے جس طرح کا رسول فرعون کے پاس بھیجا تھا۔ اس اعتبار سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم اور رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کی قوم کے انکار اور کردار میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اسی بنا پر بدر کے واقعات، اہل مکہ اور منافقین کا کردار اور انجام بیان کرنے کے دوران فرعون اور آل فرعون کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے۔ جس طرح فرعون اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا مسلسل انکار کرکے اپنے انجام کو پہنچا اسی طرح ابو جہل اور اس کے ساتھی (اَنَا وَلَا غَیْرِیْ) کا دعویٰ کرتے ہوئے اللہ کی آیات کے منکرٹھہرے اور رسول معظم (ﷺ) کے معجزات کا متواتر انکار کرتے رہے۔ جس طرح فرعون اور اس کے ساتھی موسیٰ (علیہ السلام) کے تعاقب میں اندھے ہوئے تھے اسی طرح ابو جہل اور اس کے ساتھی اپنے غرور وتکبر اور طاقت کے زعم میں اندھے ہو کر بدر کی طرف نکلے تھے۔ چنانچہ ان کا انجام بھی آل فرعون کی طرح دنیا نے دیکھا فرعون نے ڈبکیاں لیتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لانے کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ابو جہل نے مرتے وقت بھی یہ کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ مجھے مارنے والے قریشی جوانوں کے بجائے انصار کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں گویا کہ یہ آخری وقت فرعون سے بڑھ کر فرعون نکلا اس لیے اس کی لاش کو بدر کے ویران کنویں میں ڈالتے ہوئے نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ یہ میری امت کا فرعون تھا۔ ( البدایہ والنھایہ) جس طرح آل فرعون اپنے گناہوں کی وجہ سے پکڑے گئے اسی طرح ابو جہل اور اس کی ساتھی اپنے جرائم کی بنا پر اللہ کی گرفت میں آئے۔ اللہ تعالیٰ سخت ترین گرفت کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کیے ہوئے اپنے انعام کو نہیں بدلتاجب وہ قوم اپنی بدکردارکے ذریعے اسے بدل نہ دے اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور کام کو جاننے والا ہے۔ مسائل : 1۔ آل فرعون اور مشرکین کا کردار اور انجام ایک جیسا ہوا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب دیتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کی شدید گرفت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے : 1۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ (المائدۃ:98) 2۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں کو سخت ترین عذاب سے دو چار کرے گا۔ (آل عمران :56) 3۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ (آل عمران :4) 4۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں کے لیے شدید عذاب ہے۔ (الانفال :13)