وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ
اور کاش! تو دیکھے جب فرشتے ان لوگوں کی جان قبض کرتے ہیں جنھوں نے کفر کیا، ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہیں۔ اور جلنے کا عذاب چکھو۔
فہم القرآن : (آیت 50 سے 51) ربط کلام : منافق کا انجام اور موت کے وقت اس کی سزا۔ ﴿تَرٰی﴾ کا معنی ہے بصیرت یا جسمانی آنکھوں کے ساتھ کسی چیز کو دیکھنا۔ یہاں صاحب ایمان شخص کو توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر وہ بصیرت یا بصارت کے ساتھ منافقین کی موت کا وقت دیکھ سکے تو اسے معلوم ہو کہ ان کا انجام کتنا بد ترین ہوتا ہے۔ موت کے فرشتے ان کے چہروں اور کمروں پرتھپڑ مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب جہنم کا جلا دینے والا عذاب ہمیشہ کے لیے چکھتے رہو۔ اس آیت سے پہلے منافقوں کا ذکر ہو رہا تھا لیکن ان کا انجام بیان کرتے ہوئے منافق کی بجائے کافر کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ منافق بظاہر کلمہ گو اور مسلمانوں جیسے کام کرتا ہے لیکن اصلاً وہ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کا منکر ہوتا ہے۔ اس لیے حقیقتاً وہ کافر ہوتا ہے۔ اگر اس کا اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان ہو تو وہ نہ مسلمانوں کو دھوکہ دے اور نہ ہی آخرت کے بدلہ میں دنیاوی مفاد کو ترجیح دے۔ یہ سزا ان کے اپنے کردار کا نتیجہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ منافق دنیا میں اللہ کا مخلص بندہ بننے کی بجائے اپنے مفاد کے بندہ بن کر رہا۔ موت کے وقت اسے ہمدردی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضرورت تھی لیکن یہ منافقت اور دوغلے کردار کی وجہ سے موت کے نازک لمحات میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ٹھہرا اور قیامت کے دن اسے جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں پھینکا جائے گا۔ (سورۃ النساء :145) سورۃ الانعام : آیت 93 میں ہے کہ جب ایسے لوگوں کی جان قبض کی جاتی ہے تو موت کے فرشتے انہیں مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی جان کیوں نہیں نکالتے ہو؟ ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (ﷺ) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے ہم قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (ﷺ) بیٹھ گئے ہم بھی ان کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (ﷺ) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کو کرید رہے تھے آپ نے اپنا سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے؟ پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے وہ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی طرف چل۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کی روح کو نکال کر جس تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح لاش سے گندی بدبو زمین پر پھیلتی ہے وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون سی ہے۔ موت کے فرشتے کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے اس کے برے نام لے کر اس کو بلاتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہوجائے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے لیے زمین کی تہہ میں ٹھکانہ بناؤ۔ پھر اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں“ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے تو وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ تو وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے تم اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کے پاس اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے۔ اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے ذلیل کیا جائے گا وہ کہتا ہے کہ تم کون ہو اس طرح کی شکل والے جو اتنی بری بات کے ساتھ آئے ہو تو وہ کہے گا میں تیرا بد عمل ہوں وہ کہے گا اے میرے رب کبھی قیامت قائم نہ کرنا۔“ [ مسند احمد] مسائل : 1۔ منافق اور کافر کی روح قبض کرتے وقت فرشتے نہایت ہی سختی کرتے ہیں۔ 2۔ برے لوگوں کے لیے جلانے والا عذاب ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا : 1۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (التوبۃ:70) 2۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (العنکبوت :40) 3۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (الروم :9) 4۔ اللہ لوگوں پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس :44) 5۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کو اپنے روبرو پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف :49) 6۔ قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائیگا اور کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (الانبیاء :47) 7۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائیگا۔ (یس :54) 8۔ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اس کا صلہ اسی کے لیے ہے اور جو برے اعمال کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا اور تیرا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں فرمائے گا۔ (حٰم السجدۃ:46)