وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَّا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور اس فتنے سے بچ جاؤ جو لازماً ان لوگوں کو خاص طور پر نہیں پہنچے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا اور جان لو کہ بے شک اللہ بہت سخت سزا والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان سے لاپروائی کریں گے اور آخرت کو بھول جائیں گے تو پھر فتنوں کا شکار ہوں گے۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی بات کو انسان کے لیے حیات بخش قرار دیا گیا ہے۔ یعنی مسلمان اور امت کی بقا اسی وقت تک ہے۔ جب تک اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے رہیں گے۔ جب مسلمان اس کو چھوڑ دیں گے تو پھر من حیث القوم آزمائش اور فتنوں کا شکار ہوں گے۔ اس سے یہاں ڈرایا گیا ہے کہ اے مسلمانو اس آزمائش سے بچو جس میں صرف برے لوگ ہی نہیں مبتلاہوں گے بلکہ اس آزمائش اور فتنہ کی لپیٹ میں مخلص مسلمان بھی آجائیں گے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ شدید پکڑنے والا ہے۔ قرب قیامت کا ذکر کرتے ہوئے نبی (ﷺ) فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے قریب لوگوں سے ایمان اٹھ جائے گا اور فتنے اس طرح نازل ہوں گے جس طرح تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو اس کے دانے ایک دوسرے کے اوپر گرتے ہیں ان فتنوں سے ایماندار بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ مسلمانوں کو اس فتنہ سے متنبہ کرنے کے لیے پے درپے زور دار چار الفاظ بولے گئے ہیں۔ 1۔ فتنہ سے بچ جاؤ۔ 2۔ نیک لوگ بھی اس فتنہ سے نہیں بچ سکیں گے۔ 3۔ خبردار ہوجاؤ۔ 4۔ اللہ تعالیٰ شدیدترین عذاب والا ہے۔ رسول معظم (ﷺ) کا فرمان ہے کہ جب لوگ نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا اور جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیں گے۔ تو پھر وہ اس فتنہ خاصہ میں مبتلا ہوجائیں گے۔ (عَنْ ثَوْبَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یُوشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعٰی الْأَکَلَۃُ إِلٰی قَصْعَتِہَا فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاء السَّیْلِ وَلَیَنْزَعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمْ الْمَہَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِی قُلُوبِکُمْ الْوَہْنَ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُول اللّٰہِ وَمَا الْوَہْنُ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ) [ رواہ ابو داود : کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام] ” حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا عنقریب لوگ تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گے جیسے کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک صحابی نے عرض کی ہم اس وقت تھوڑی تعداد میں ہوں گے ؟ نبی مکرم (ﷺ) نے فرمایا نہیں بلکہ تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی لیکن تم اس وقت سیلاب میں بہنے والے تنکوں کی طرح ہوگے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب ودبدبہ ختم کردے گا اور تمہارے دلوں میں ” وہن“ ڈال دیا جائے گا۔ کسی صحابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! وہن کیا ہے ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : دنیا سے محبت اور موت سے کراہت۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَیَقُولُ یَا لَیْتَنِی مَکَانَہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الفتن، بَاب لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی یُغْبَطَ أَہْلُ الْقُبُورِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ایک آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرے گا تو خواہش کرے گا کاش ! میں آج اس کی جگہ ہوتا۔“ مسائل : 1۔ اجتماعی آزمائش سے نیک لوگ بھی نہیں بچ سکتے۔ 2۔ فتنہ سے بچتے رہنا چاہیے۔ 3۔ پر فتن دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کرنی مشکل ہوجائے گی۔ تفسیر بالقرآن : آزمائش کی مختلف صورتیں : 1۔ ہم تمہیں کسی چیز کے خوف، بھوک، مال اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے۔ (البقرۃ:155) 2۔ کیا لوگوں نے تصور کرلیا ہے کہ وہ ایمان کا اقرار کریں اور انہیں آزمایا نہ جائے۔ (العنکبوت :2) 3۔ یقیناً تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔ (التغابن :15)